مولانا نے کھڑے ہو کر تقریر شروع کی جو کافی دیر جاری رہی۔ مرزا قادیانی کے متعلق بہت سے لطیفے سنائے اور جلسہ لوٹ لیا۔مجمعے کا یہ حال تھا کہ اللہ کبر کے نعرے گونج رہے تھے او رفاتح قادیان زندہ باد اور شیر پنجاب زندہ باد کی آوازیں آرہی تھیں۔ ساتھ ہی سر ظفر اللہ مردہ باد اور قادیانیت مردہ باد کے نعرے لگ رہے تھے اور چند لمحوں میں عجیب سماں بندھ گیا تھا۔ جیون ہال کا جلسہ حضرت مولانا ثناء اللہ صاحب کی تشریف آوری اور تقریر سے بہت کامیاب رہا اور ساتھ ہی دوسری طرف دارالحدیث رحمانیہ کا جلسہ بھی ہوتا رہا۔رحمانیہ میں جیون ہال کے جلسے کا کسی کو علم نہیں تھا۔ بعد میں جب لوگوں کو اس کا پتا چلا تو وہ بہت افسردہ ہوئے۔ کہ انھیں اس کی بالکل خبر نہ ہوئی۔ اگر خبر جاتی تو وہ جیون ہال کا جلسہ ضرور دیکھتے۔ 3۔۔۔مولانا عبدالغفار حسن کے زمانہ طالب علمی میں ایک مرتبہ مولانا ثناء اللہ امرتسری اور مولانا محمد ابراہیم سیالکوٹی دونوں مدرسہ رحمانیہ تشریف لائے۔طلبا نے ان کے اعزاز میں استقبالیہ دیا اور جلسے کا اہتمام کیا۔ مولانا عبدالغفار حسن کے ہم سبق ایک طالب علم محمد لقمان بنگالی نے عربی قصیدہ پیش کیا جس کے ایک شعر کا ترجمہ یہ تھا کہ آج ہماری مادر علمی میں دو شیر آئے ہیں۔یہ شعر سن کر مولانا ثناء اللہ صاحب نے مسکراتے ہوئے کہا: (هل يجتمع الأسدان في عرين واحد؟) (کیا ایک بن میں دوشیر جمع ہو سکتے ہیں؟)[1] مولانا عبدالغفار حسن نے الاعتصام کی متعدد قسطوں میں پھیلے ہوئے اپنے مضمون میں ان بہت سے علمائے عظام کا تذکرہ فرمایا ہے جو ان کے زمانہ طالب علمی میں مدرسہ رحمانیہ گئے اور ان سے ان کو ملنے اور سلام کرنے کے مواقع میسر آئے۔ مولانا نے اپنے اساتذہ کرام کا ذکر بھی بے حد احترام سے کیا ہے۔ یہ مضمون اگر کتابی شکل میں چھپ جائے تو میرے خیال میں بہت مفید رہے گا۔ جماعت اہل حدیث کے متعدد اصحاب علم کی یہ ایک مختصر مگر جامع تاریخ ہے۔ مضمون میں جن علمائے کرام کے نام لیے گئے ہیں۔ ان کے حالات بھی مختصر الفاظ میں بیان کردیے جائیں۔ حضرت مولانا محمد ابراہیم سیالکوٹی کا تذکرہ کرتے ہوئے مولانا عبدالغفار حسن نے لکھا ہے کہ وہ عام جلسوں میں تقریر کے دوران جب ماضی قریب کے علمائے اہل حدیث کا ذکر فرماتے ہوئے مولانا عبدالجبار غزنوی کے ساتھ مولانا عبدالجبار عمر پوری (مولانا عبدالغفار حسن کے جد امجد ) کا تذکرہ |