Maktaba Wahhabi

337 - 665
تشریف فرما تھے۔ مولانا ثناء اللہ صاحب امرتسری بھی شریک جلسہ تھے۔انہی دنوں فتح پوری مسجد کے جنوب مشرقی کو نے میں جیون ہال میں مسلم لیگ کا جلسہ ہو رہا تھا۔ اس جلسےکی صدارت مشہور قادیانی سر ظفر اللہ کرنے والا تھا، جس کا اعلان کردیا گیا تھا۔ دارالحدیث رحمانیہ کے ایک فارغ التحصیل نوجوان حافظ محمد ابراہیم اس وقت دہلی کی مجلس احرار کے سر گرم اور ممتاز رہنما تھے۔حافظ صاحب کی تحریک سے احرار کارکنوں نے فیصلہ کیا کہ سرظفر اللہ کی صدارت میں مسلم لیگ کا جلسہ نہیں ہونے دیا جائے گا۔ مسلمانوں کے جوش و خروش کا یہ عالم تھا کہ پوری مسجد فتح پوری اور اس کے پاس کے سب بازار لوگوں سے بھرے ہوئے تھے اور لوگ برملا اعلان کر رہے تھے کہ ظفر اللہ جیون ہال میں نہیں داخل ہونے دیا جائے گا۔ احرار کا رکن اور دوسرے مسلمان نوجوان سیاہ جھنڈیاں لے کر دہلی کے ریلوے اسٹیشن پر پہنچ گئے۔ یہ صورت حال دیکھ کر جلسے کے منتظمین نے ظفر اللہ کو نئی دہلی کے ریلوے اسٹیشن پر اتار لیا اور وہیں کسی کو ٹھی میں جلسہ کرنے کی کوشش کی۔ احرار کارکنوں نے اس کوٹھی کا بھی گھیراؤکر لیا۔ اس موقعے پر حافظ محمد ابراہیم صاحب دارالحدیث رحمانیہ آئے۔ دو بجے کا وقت تھا۔ رحمانیہ میں جلسہ ہورہا تھا، لیکن مولانا ثناء اللہ صاحب ابھی جلسہ گاہ میں نہیں آئے تھے، وہ اپنی قیام گاہ پر آرام فرما رہے تھے۔ حافظ ابراہیم نے جلسے کے بعض اصحاب انتظام سے بات کی اور انھیں تمام واقعہ سنایا اور کہا کہ اس موقعے پر مولانا امرتسری کا جیون ہال میں پہنچنا بڑا ضروری ہے۔ یہ جلسہ ان کی صدارت میں ہونا چاہیے۔ لیکن سوال یہ تھا کہ اگر حاضرین کے کانوں میں ذرا بھی بھنک پڑگئی تو لوگ مولانا امرتسری کی تقریر سننے کی غرض سے فتح پوری مسجد کی طرف دوڑیں گے اور رحمانیہ کا جلسہ اکھڑ جائے گا۔ اس خطرے کے پیش نظر حافظ محمد ابراہیم صاحب مولانا کو مدرسے کے عقبی دروازے سے باہر لے گئے اور کار میں بٹھا کر مسجد فتح پوری پہنچ گئے۔ مولانا جب مسجد فتح پوری کے شمالی دروازے پر پہنچے تو لوگوں نے ان کو دیکھ کر فاتح قادیان زندہ باد کے نعرے لگانا شروع کردیے اور انھیں کندھوں پر اٹھالیا۔ پھولوں کے اتنے ہاران کے گلے میں ڈالے گئے کہ ان کا چہرہ بڑے مشکل سے نظر آتا تھا۔مولانا ممدوح اسی طرح ہاروں سے لدھے ہوئے، لوگوں کے کندھوں پر سوار فتح پوری کے شمالی دروازے سے جنوبی دروازے میں پہنچے۔ پھر وہاں سے جیون ہال کی سیڑھیاں طے کرتے ہوئے ہال کے اندر داخل ہوئے۔ جو سٹیج سر ظفر اللہ کےلیے تیار کیا گیا تھا اور جو کرسی صدارت اس کے لیے سجائی گئی تھی، اس پر فاتح قادیان مولانا ثناء اللہ امرتسری جلوہ افروز ہوئے۔
Flag Counter