مبارک پوری تک پہنچا دی۔ ان کا مطلب یہ تھا کہ یہ طریقہ خلاف سنت ہے، سورہ دہر پوری پڑھنی چاہیےتھی۔اب وہ حضرت مولانامبارک پوری کی خدمت میں حاضر ہوئے تو مولانا نے ان کو تاکید کی کہ آپ دونوں سورتیں پوری پڑھا کریں۔ جہاں کہیں حدیث میں آیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فلاں سورت فلاں دن فلاں وقت تلاوت فرمائی تو اس سے مراد پوری سورت ہے، لہٰذا آدھی یا اس سے کم یا چند آیات پڑھ کر رکوع میں جانا خلاف سنت ہے۔ پوری سورت پڑھنی چاہیے۔ لیکن آج کل ہمارے زیادہ تر خطیب صاحبان اس پر عمل نہیں کرتے۔ عام طور سےدیکھا گیا ہے کہ نماز جمعہ کی پہلی رکعت میں سورۃ الاعلیٰ تو وہ پوری پڑھتے ہیں، لیکن دوسری رکعت میں سورہ غاشیہ کی (أَفَلا يَنْظُرُونَ) سے آخری آیات پڑھنے پر اکتفا کرتے ہیں۔ مولانا عبدالغفار حسن بیان فرماتے ہیں کہ حضرت مولانا عبدالرحمٰن مبارک پوری رحمۃ اللہ علیہ اپنے حال و قال و چال ڈھال میں ہر لحاظ سے سلف صالحین کا نمونہ تھے۔ بہت ہی نرم مزاج، متواضع اور خوش اخلاق تھے۔مالی حالت زیادہ اچھی نہ تھی، لیکن اس کے باوجود ان کی شان فیاضانہ تھی۔[1] حضرت مولانا ثناء اللہ امرتسری رحمۃ اللہ علیہ سے متعلق بھی مولانا عبدالغفارحسن نے بعض واقعات تحریر کیے ہیں۔ وہ فرماتے ہیں کہ دارالحدیث رحمانیہ میں عام طور سے ہر سال عظیم الشان جلسے کا انعقاد عمل میں آتا تھا، ۔جس میں اکابر علمائے توحید و سنت کو دعوت دی جاتی تھی، ان میں مولانا ثنااللہ صاحب مرحوم فہرست ہوتے تھے۔ ذیل میں مونا عبدالغفار کی روایت سے مولانا امرتسری مرحوم کے چند دلچسپ واقعات بیان کیے جاتے ہیں۔ 1۔۔۔۔مدرسہ رحمانیہ میں سالانہ جلسے کے موقعے پر طلبا درسگاہ کے ہال میں مختلف رنگوں کی جھنڈیاں لگا دیتے تھے۔ایک مرتبہ جلسے کی صدارت مولانا ثناء اللہ صاحب فرما رہے تھے۔ ایک صاحب نے بصورت سوال کہا: کیا جھنڈیاں لگانا اسراف میں شامل نہیں۔؟سجاوٹ کا یہ انداز سنت کے خلاف ہے۔صدر جلسہ مولانا ثناء اللہ صاحب نے مسکراتے ہوئے اپنی کشمیری شال کی طرف اشارہ کیا جس کے کنارے پر پھول بنے ہوئے تھے، فرمایا اس شال میں جو یہ پھول بنے ہوئے ہیں جائز ہیں یا ناجائز ؟ اور کیا یہ اسراف کی تعریف میں آتے ہیں؟ اس پر وہ صاحب خاموش ہوگئے۔ 2۔۔۔1931ءکا واقعہ ہے کہ دارالحدیث رحمانیہ کا سالانہ جلسہ ہو رہا تھا۔ مشاہیر علمائے اہل حدیث |