Maktaba Wahhabi

333 - 665
خطبہ عید پورےہندوستان میں ریڈیو کے ذریعے سنایا جائے گا۔ کہیں نماز سے پہلے کہیں نماز کے بعد۔ میں بھی کلکتےکی وسیع وعریض عیدگاہ میں پہنچ گیا۔بہت بڑا مجمع تھا۔مولانا کی تقریر کا ایک فقرہ یا اس کا مفہوم اچھی طرح یاد ہے، جس پر لوگ عش عش کر اٹھے۔انھوں نے فرمایا مجھے بتایا گیا ہے کہ آج میرا یہ خطبہ پورے ہندوستان کے تمام گلی کوچوں میں سنا جائے گا اور ملک کی تمام عیدگاہوں اور مسجدوں میں میری آواز گونجے گی۔ 2۔۔۔اس کے بعد مولانا نے ہندوستان کی جغرافیائی لحاظ سے چاروں حدود بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ شمال سے لے کرجنوب تک اور مغرب سے لے کر مشرق تک میری آواز سنی جائے گی۔یہ سائنس کا بہت بڑا کمال ہے، اس نے یہ بڑا مفید آلہ ایجاد کی ہے۔ لیکن کیا یہ جدید سائنس کوئی ایسا آلہ بھی تیار کر سکتی ہے جو میری آواز لوگوں کے دلوں کی گہرائیوں تک پہنچا دے؟جس کی بنیاد پر زندگیوں میں انقلاب آجائے، فکر و نظر کا عالم بدل جائے اور اخلاق کی دنیا ایک نئے رنگ اور نئے ڈھنگ سے آشنا ہو جائے۔ 3۔۔۔مولانا ئے محترم کا خطبہ عید سننے کے بعد دل میں شوق پیدا ہوا کہ ان کا خطبہ جمعہ بھی سنا جائے۔چنانچہ ایک دو مرتبہ میں شیخ محمد صدیق سیالکوٹی کے ساتھ بالی گنج گیا جو کلکتے کے مضافات میں ہے۔مولانا کی قیام گاہ کے قریب ایک چھوٹی سی مسجد تھی جو ویران پڑی تھی۔ایک دن مولانا کو خیال آیا کہ کتنے افسوس کی بات ہے، میں قریب رہتا ہوں اور یہ مسجد جو اللہ کا گھر ہے ویران پڑی ہے۔مولانا موصوف نے اس کی صفائی کرائی اور وہاں خطبہ جمعہ شروع کردیا۔ لوگوں کو پتا چلا تو مولانا کا خطبہ سننے کے لیے دور دور سے اس مسجد میں آنے لگے۔ 4۔۔۔ایک مرتبہ مجھے بھی مولانا کا خطبہ سننے کا شرف حاصل ہوا۔ خطبہ دینی علمی معلومات سے بھر پور تھا۔مولانا نے زیادہ تر آیات و احادیث قربانی کے موضوع سے متعلق بیان کیں۔افسوس ہے اس کے بعد مولانا کی تقریر سننے کا موقع نہ ملا۔ 5۔۔۔مولانا عبدالغفار حسن فرماتے ہیں، مولانا ابو الکلام آزاد کے متعلق ایک اور واقعہ وہ ہے، جس کے راوی شیخ محمد صادق سیالکوٹی ہیں جو تقسیم ہند کے وقت کلکتہ میں عینکوں کے بہت بڑے تاجر تھے اور مولانا آزاد سے بے حدذہنی لگاؤ رکھتے تھے۔ ان کا بیان ہے کہ جمعیت تبلیغ اہل حدیث کلکتہ کا سالانہ جلسہ ہونے والا تھا۔ چنیوٹ کے سوداگر کلکتے میں بہت بڑی تعداد میں موجودتھے۔ ان کا اصرار تھا کہ مولانا ابو الکلام آزاد اور سید عطاء اللہ شاہ بخاری کو اس جلسے میں ضرور بلایا جائے۔اس جلسے کے صدر مولانا محمد ابراہیم سیالکوٹی تھے۔ اس زمانے میں کانگرس اور مسلم لیگ کے درمیان کشمکش شروع ہو چکی تھی۔
Flag Counter