ہے اورکا سئہ گدائی لے کر لوگوں سے خیرات مانگتا ہے۔اس قسم کے افسانوں یا مقامات سے طلبا کے اخلاق پر برا اثر پڑتا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ بہت سے خیراتی مولوی انہی افسانوں کی پیدا وار ہوں۔ 5۔۔۔مولانا آزاد نے عربی کی ایک اور کتاب جو ہمارے دینی نصاب میں داخل ہے فخۃالیمن پر بھی تبصرہ کی اور فرمایا اس کتاب میں اخلاقی تعلیم کا درس نہیں ملتا، بلکہ طالب علم کا رجحان پستی اخلاق کی طرف ہو جاتا ہے۔ 6۔۔۔مولانا آزاد کی تقریر تقریباً دو گھنٹے جاری رہی۔ افسوس کہ قلم بند نہ ہوسکی۔اس زمانے میں ٹیپ ریکارڈ کا بھی رواج نہ تھا۔ 7۔۔۔تقریر کے بعد مولانا آزاد کی چائے سے ضیافت کی گئی۔اس موقعے پر مولانا کی ملاقات ایک طالب علم محمد عمر سے ہوئی جو پنجاب کا رہنے والا تھا اور کھدر پوش تھا۔ مولانا نے اس سے بڑی گرم جوشی سے مصافحہ کیا اور اسے دیکھ کر بے حد خوش ہوئے۔ 8۔۔۔مولانا عبدالغفار حسن فرماتے ہیں میں نے بھی قریب ہو کر مولاناسے مصافحہ کیا اور کچھ سوال و جواب ہوئے۔ مولانا موصوف نے بڑی محبت سے طلبا سے گفتگو کی او ران سے حالات دریافت کیے۔ افسوس ہے کہ اس کے بعد پھر مولانا محترم مدرسہ رحمانیہ تشریف نہ لا سکے اور طلباان کے علمی خزانے سے فائدہ نہ اٹھا سکے۔ 9۔۔۔مولانا ابو الکلام آزاد کی تمام تصانیف مثلاً تذکرہ، جامع الشواہدفی دخول غیر مسلم فی المساجد، ترجمان القرآن جلد اول و دوم اور البلاغ و الہلال کے اثر شمارے میری نظر سے گزرے ہیں۔ 10۔مولانا موصوف خطابت کے بادشاہ تھے اور ان کی تحریر بھی بہت زوردار تھی۔ 11۔مولانا آزاد نے مدرسہ رحمانیہ کے رجسٹر پر حساب ذیل الفاظ تحریر فرمائیے۔ ”عمارت معقول ہے۔مصارف کاکافی انتظام ہے۔ مدرسے میں طلبا کے قیام کا بھی انتظام ہے۔ قریباً75طلبا ہیں، جن کے تمام مصارف کامتکفل مدرسہ ہے اور ان کی ضروریات کا سیر چشمی کے ساتھ انتظام کیا جاتا ہے۔مدارس عربیہ کی عام بے سروسامانیاں دیکھتے ہوئے یقیناً یہ صورت حال نہایت مغتنم ہے۔“ مدرسہ رحمانیہ دہلی کے بعد اب کلکتے چلیے۔ وہاں بھی مولانا عبدالغفار حسن کو مولانا ابو الکلام آزاد کی تقریر سننے کا موقع ملا۔اس کی تفصیل بھی بعض مقامات میں کچھ تبدیلی الفاظ کے ساتھ نمبردار مولانا عبدالغفار حسن کے حوالے سے سنیے۔ 1۔۔۔غالباً1938ء کا واقعہ ہے، جب کہ میں کلکتہ میں تھا۔ اس موقعے پر معلوم ہوا کہ مولانا محترم کا |