Maktaba Wahhabi

331 - 665
تقریریں کیں۔لوگ حیران تھے کہ یہ کس ملک کا باشندہ ہے جو اتنی اچھی عربی بول رہا ہے۔ ایک تقریر کے بعد ایک عرب عالم نے ان سے پوچھا ہی لیا:“ (اَنْتَ مِنَ الْيَمَنِ اَوْ مِنَ الْحِجِاَزِ اَوْ مِنَ اَيّ بَلَدِ اَنْتَ؟) ”یعنی آپ کا مسکن کون سا ملک ہے؟آپ یمنی ہیں یا حجازی ہیں؟ یا کسی اورعلاقے کے باشندے ہیں؟“[1] ادب و لغت اور انساب ورجال کے اس امام نے7۔اگست 1942؁ء کو علی گڑھ میں وفات پائی۔ مولانا عبدالغفار حسن کے زمانہ طالب علمی میں ایک مرتبہ مولانا ابو الکلام آزاد بھی مدرسہ رحمانیہ تشریف لے گئے تھے اور انھوں نے اساتذہ و طلبا کے مجمعے میں تقریر کی تھی۔مولانا عبدالغفارحسن نے اپنے مضمون میں اس کا ذکر بھی فرمایا ہے۔ مولا نا آزاد کے ارشادات ببحوالہ مولانا عبدالغفارحسن ذیل نمبر وار درج کیے جاتے ہیں۔ 1۔۔۔1927؁ءمیں مولانا ابو الکلام آزاد مرحوم مدرسہ رحمانیہ میں تشریف لائے اور مدرسے کے وسیع ہال (دارالتذکیر) میں دینی نظام تعلیم کے موضوع پر انتہائی معلومات افزا تقریر فرمائی۔ مولانا آزاد کی ساری تقریر تو یاد نہیں رہی، البتہ چند باتیں ذہن میں محفوظ ہیں۔ 2۔۔۔مولانا آزادنے سب سے پہلے دینی تعلیم کی اہمیت بیان کی۔پھر درس نظامی کی تاریخ بیان فرمائی اور اس کے محاسن و نقائص کا تذکرہ کیا۔ نقائص بیان کرتے ہوئے انھوں نے توجہ دلائی کہ موجودہ حالات میں منطق و فلسفہ کی پرانی کتابیں غیر ضروری ہیں، ان کا پڑھنا ضیاع وقت ہے۔ اس کے ساتھ ہی انھوں نے عربی ادب کا جائزہ لیا اور مقامات حریری پر سخت تنقید کی۔ انھوں نے فرمایا اس کتاب میں وہ بڑے نقص ہیں۔ ایک ظاہری، دوسرا معنوی۔ 3۔۔۔ظاہری نقص یہ ہے کہ حریری صاحب مسجع اورمقصّٰی عبارت کے شیدائی ہیں۔ان کی قافیہ بندی میں تکلف پایا جاتا ہے۔اس کتاب کو پڑھنے کے بعد طلبا میں بھی یہی اسلوب نگارش رچ بس جاتا ہے اور معنوی حسن کے بجائے ظاہری قافیہ بندی اور فن بدیع کے محاسن کا اہتمام کیا جاتا ہے، حالانکہ عربی عبارت اس طرح کی نہیں ہونی چاہیے۔اگر اس میں قافیہ بندی بھی ہو تو بغیر کسی تکلف کے روانی کے ساتھ آئے۔ 4۔۔۔اس کتاب کا معنوی نقص یہ ہے کہ اس سے طلبا کی غلط تربیت ہوتی ہے۔یہ مقامات کیا ہیں، ایک قسم کے افسانے ہیں۔ ان افسانوں میں ایک افسانہ یہ ہے کہ ابو زید سروجی قبرستان پہنچتا
Flag Counter