طلب علم میں مشغول رہے۔ سند فراغت دسمبر 1933ءمیں دارالحدیث رحمانیہ سے لی۔اساتذہ کرام میں مولانا فضل الرحمٰن بقا غازی پوری، حضرت مولانا احمد اللہ دہلوی، مولانا عبدالرحمٰن نگرنہسوی، مولانا محمد سورتی اور مولانا عبیداللہ رحمانی مبارک پوری شامل ہیں۔حضرت مولانا عبدالرحمٰن مبارک پوری (صاحب تحفۃ الاحوذی) سے بھی جزوی طور پر استفادے کے مواقع میسر آئے، رحمہم اللہ تعالیٰ رحمۃ واسعۃ اس کے بعد لکھنؤ یونیورسٹی سے فاضل ادب (عربی)کا امتحان دیا اور کامیاب ہوئے۔ پھر پنجاب یونیورسٹی سے مولوی فاضل کا امتحان پاس کیا۔ عمل وسعی کی مختلف منزلیں یہ مراحل طے کرنے کے بعد ان کا قافلہ عمل وسعی جن جن منزلوں سے گزرا، ان سے بھی آگاہ ہونا ضروری ہے۔اس کا تذکرہ انھوں نے اپنی کتاب ”عظمت حدیث“میں بھی کیا ہے۔1994ءکے ہفت روزہ ”الاعتصام“کے بعض شماروں میں بھی کیا ہے اور ماہنامہ ”شہادت“(اسلام آباد)کے اس انٹرویو میں بھی کیا ہے جو ان سے اس کے چیف ایڈیٹر خالد سیال صاحب نے کیا اور دسمبر1996ءکے ”شہادت“میں چھپا۔۔۔ملاحظہ فرمائیے۔ ©۔۔۔1936ءسے 1942ءتک سات سال مدرسہ رحمانیہ بنارس میں تفسیر و حدیث، ادب عربی اور دیگر علوم عربیہ واسلامیہ کی تدریس کے فرائض سر انجام دیتے رہے۔ ©۔۔۔1942ءکے اگست میں مشرقی پنجاب کے شہر مالیر کو ٹلہ چلے گئے۔ مئی 1948ءتک وہاں کے مدرسہ کوثر العلوم میں چھ سال ان کی تدریسی سر گرمیاں جاری رہیں۔ یہ وہاں کی انجمن اہل حدیث کا مدرسہ تھا، وہاں کی جامع مسجد اہل حدیث کی خطابت بھی ان کے ذمے تھی۔ جماعت اسلامی سے وابستگی اس زمانے میں مولانا ممدوح جماعت اسلامی سے منسلک تھے۔ جماعت اسلامی کی تاسیس 26، 25اگست 1941ءکو لاہورمیں ہوئی تھی۔ اس کی تاسیس سے قبل وہ مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی کی تحریر یں پڑھتے رہے تھے اور ان تحریروں میں انھوں نے جو اسلام پیش فرمایا تھا، اس سے وہ بہت متاثر ہوئے تھے۔ پھر جماعت اسلامی قائم ہوئی تو اس میں شامل ہونے کے لیے اس کے بانی مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی سے درخواست کی، انھوں نے درخواست منظور فرمائی اور وہ اس میں شامل ہو گئے اور جماعت اسلامی کی بہت خدمت کی اور 1957ءتک سولہ سترہ سال خدمت انجام دیتے رہے۔پھر اصل حقیقت واضح ہوئی تو اس پرانے اسلام کی طرف لوٹ آئے جو اپنے آباؤ اجداد اور |