اور نہایت مؤثر انداز میں صبر کی تلقین فرمائی۔ غم کا سال 1916ءکا سال اس خاندان کے لیے خاص طور پر حافظ عبدالستارصاحب کی والدہ (مولانا عبدالغفار حسن کی دادی محترمہ)کے لیے عام حزن تھا۔اسی سا ل اس نیک بخت خاتون کے شوہر مولاناعبدالجبار عمر پوری کا انتقال ہوا، اسی سال ان کے نوجوان بیٹے حافظ عبدالستار نے رحلت فرمائی، اسی سال ان کی جوان بہو(مولانا عبدالغفار حسن کی والدہ) نے وفات پائی۔اسی سال مولانا عبدالغفار حسن کے چھوٹے بھائی عبدالقہار کو موت کا پیغام آیا۔ جس وقت یہ تمام سانحے پیش آئے، اس وقت مولانا عبدالغفار حسن کی عمرصرف چار سال تھی۔[1] اس وقت دنیا میں نہ ان کے دادا رہے تھے، نہ والد تھے، نہ والدہ تھیں اور نہ کوئی بڑا یا چھوٹا بھائی، فقط اللہ کا سہارا تھا اور وہی اصل سہارا ہے، باقی سب چیزیں جو ہمیں سطح ارض پر نظر آرہی ہیں، عارضی اور فانی ہیں۔ (كُلُّ مَنْ عَلَيْهَا فَانٍ وَيَبْقَى وَجْهُ رَبِّكَ ذُو الْجَلالِ وَالإكْرَامِ) (الرحمٰن :27۔26) ان گزارشات كے بعد اب مولانا عبدالغفار حسن كے بارے میں چند معروضات پیش کی جاتی ہیں۔ ولادت اور حصول علم مولانا عبدالغفار حسن20۔جولائی1913ءکو اپنے آبائی وطن عمر پور میں پیدا ہوئے۔ جیسا کہ ابھی عرض کیا گیا دادا، والد اور والدہ یکے بعد دیگر ے ایک ہی سال (1916ء)میں وفات پاگئے تھے۔صرف دادی زندہ تھیں، انہی کی تربیت اورکوشش اور دعاؤں سے حصول علم کی مختلف منزلیں طے کیں اور اللہ تعالیٰ نے سعی و عمل کے ہر میدان میں کامیابی عطا فرمائی۔اس دکھیاری مگر اولو العزم خاتون نے 1928ءمیں وفات پائی اللہم اغفرلہا وارحمہا۔ مولانا عبدالغفار حسن نے حصول علم کا آغاز دہلی کی درسگاہ دارالہدیٰ سے کیا جو وہاں کے محلہ کشن گنج میں واقع تھی، (اسے حسن گنج بھی کہا جاتا تھا) اسی درسگاہ میں ان کے دادا مولانا عبدالجبار عمر پوری، والد مکرم مولانا حافظ عبدالستارعمر پوری اور دیگر متعدد اساتذہ کرام علما و طلبا کو زیور تعلیم سے آراستہ کرتے رہے تھے۔اس کے بعد دارالحدیث رحمانیہ دہلی میں |