لوگ تھے جو ان کے ساتھ مل کر انگریزی حکومت سے جہاد کرنے والوں کو رقوم جمع کرکے بھجواتے تھے اور ان رقوم سے وہ اسلحہ خرید کر میدان عمل میں نکلتے تھے۔مجاہدین کی مالی مدد کرنے والوں پر انگریزی حکومت پوری نگاہ رکھتی تھی۔اس”جرم“میں جو لوگ پکڑے جاتے تھے، حکومت کی طرف سے انھیں شدید سزائیں دی جاتی تھیں۔لیکن اس کے باوجود لوگ ان کی مالی مدد کرتے تھے، پکڑے بھی جاتے تھے اورمستوجب سزا بھی قرارپاتے تھے۔اس کی تفصیلات اس موضوع کی کتابوں میں مرقوم ہیں۔مولانا غلام رسول مہر مرحوم نے اپنی تصنیفات جماعت مجاہدین اور سرگزشت مجاہدین میں بالخصوص اس سلسلے کے بہت سے گوشوں کی وضاحت کی ہے۔ مولانا حافظ عبدالستار عمر پوری کا نام بھی انگریزی حکومت کی تیار کردہ اس فہرست میں شامل تھا، جنھوں نےسرحد پار کے مجاہدین کی مالی اعانت کو اپنا فریضۂ حیات قراردے رکھا تھا اور ان کے وارنٹ گرفتاری بھی جاری ہوچکے تھے۔ وفات مولانا ممدوح نے یکم جمادی الاولیٰ 1334ھ(6۔مارچ 1916ء) کو صرف 34 سال عمر پاکر عین عالم جوانی میں سفر آخرت اختیار کیا۔ عجیب بات یہ ہے کہ جس دن انھیں دفن کیا گیا اسی دن شام کو انگریزی پولیس والے ان کی گرفتاری کا وارنٹ لے کر ان کے گھر پہنچ گئے۔انھیں بتایا گیا کہ آج صبح وہ تمہاری بھاگ دوڑ سے آزاد ہوکر جنت الفردوس کو تشریف لے گئے ہیں۔[1] خاندانی حالات مولانا حافظ عبدالستار کی والدہ محترمہ بے حد صابرہ وشاکرہ اور عابدہ وزاہدہ خاتون تھیں۔حضرت مولانا عبدالواحد غزنوی رحمۃ اللہ علیہ سے انھوں نے بیعت ارشاد کی تھی۔حضرت مولانا غزنوی کو ان کے نیک نام اور عالم ومتقی بیٹے حافظ کی خبر وفات پہنچی تو نہایت حزن وملال کا اظہار کیا اور حسب ذیل آیت تحریر فرمائی: (الَّذِينَ إِذَا أَصَابَتْهُم مُّصِيبَةٌ قَالُوا إِنَّا للّٰه وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ أُولَٰئِكَ عَلَيْهِمْ صَلَوَاتٌ مِّن رَّبِّهِمْ وَرَحْمَةٌ ۖ وَأُولَٰئِكَ هُمُ الْمُهْتَدُونَ) (البقرة:155۔157) |