جن عالی قدر اساتذہ کےحضور انھوں نے زانوئے شاگردی طے کیے۔ان کے اسمائے گرامی یہ ہیں: 1۔مولانا عبدالرحمٰن معین الدین رحمۃ اللہ علیہ عمرپوری(ان کے لائق تکریم ناناتھے) 2۔مولانا عبیدالرحمٰن رحمۃ اللہ علیہ عمر پوری۔(ان کے قابل احترام ماموں تھے۔) 3۔مولانا عبدالجبار عمرپوری۔(ان کے جلیل القدر والد تھے۔) 4۔مولانا محمد بشیر سہسوانی۔(بہت بڑے عالم ومناظر اور مفسر ومحدث تھے۔) حافظ عبدالستار بے حدذہین تھے۔قرآن مجید صرف تین ماہ میں حفظ کرلیا تھا۔درسِ نظامی کی تکمیل مدرسہ احمدیہ سلفیہ آرہ(دربھنگا) میں کمی۔ علمی خدمات فارغ التحصیل ہونے کے بعد درس وتدریس میں مشغول ہوگئے۔تصنیف وتالیف کا ذوق بھی رکھتے تھے۔چنانچہ ایک رسالہ”اثبات الخبر فی رد منکری الحدیث والاثر“ کے نام سے لکھا اور ایک رسالہ مرزا قادیانی کے دعوائے نبوت کی تردید میں تحریر فرمایا۔ ان کے شاگردوں کی جماعت میں حضرت مولانا محمد اسماعیل سلفی مرحوم ومغفور بھی شامل تھے۔انھوں نے ان سے تفسیر ابن کثیر درساً درساً پڑھی تھی۔ آغاز عمر ہی میں حافظ عبدالستار زہد وپارسائی کا مرقع تھے۔خلوص واتقاء کی دولت اپنے آباؤاجداد سے ورثے میں پائی تھی۔ جہاد سے شغف جس طرح پڑھنے لکھنے میں تیز تھے، اسی طرح احکام اسلام پر عمل کرنےکے لیے بھی ہروقت مستعد رہتے تھے۔اسلام کا ایک بہت بڑا عمل اور حکم حالات کے مطابق جہاد ہے۔مولانا مرحوم کو اس پر عمل کرنے کے لیے ہمیشہ بیتاب پایا گیا۔ اور تمنائے شہادت ان کے دل میں ہر وقت موجزن رہتی تھی۔اس کے لیے ورزش، تیراکی، گھڑسواری، بنوٹ، لاٹھی چلانا، پہلوانی وغیرہ یعنی اس وقت ورزش کے جو طریقے رائج تھے، ان سب میں انھوں نے مہارت حاصل کرلی تھی۔اس سے ان کا اصل مقصد ان لوگوں کے ساتھ مل کر انگریزی حکومت کے خلاف عملاً جہاد کرناتھا جو اس اہم کام میں مصروف تھے اور وہ تھے، مولانا اسماعیل شہیددہلوی اور سید احمد شہید کے رفقائے کرام جو سرحدپار کے آزاد قبائل میں برصغیر کی انگریزی حکومت سے برسرپیکار تھے۔ حافظ عبدالستار صاحب سرحد پار کے مجاہدین سے مالی تعاون بھی کرتے تھے۔اور بھی بہت سے |