کلیم تھا اور چھوٹے کا سید علی حسن خاں طاہر۔ذیل کی سطور میں دونوں کا مختصر الفاظ میں تذکرہ کیا جاتا ہے۔ سید نور الحسن خاں کلیم بدھ کے روز21۔ رجب1278 ھ(23۔مارچ1862ء)کو بھوپال میں پیدا ہوئے۔ ان کی پرورش خدا ترسی، علم دوستی اور صلاح و تقویٰ کے اس ماحول میں ہوئی جس میں قرآن و حدیث کی صدائیں گونجتی تھیں۔سید نور الحسن خاں کلیم نے جن اساتذہ کرام سے تعلیم حاصل کی وہ علم و عمل کے اعتبار سے اپنے دور کے عظیم لوگ تھے اور وہ تھے قاضی ایوب بن قمرالدین پھلتی، قاضی انور علی لکھنوی، مولوی الٰہی بخش فیض آبادی، مولانا بشرالدین عثمانی قنوجی مولانا محمد بشیر سہسوانی، قاضی محمد بن عبدالعزیز جعفری، شیخ حسین بن محسن انصاری اور خود ان کے والد عالی قدر نواب صدیق حسن خاں۔ سید نور الحسن خاں فارسی اور اُردو کے شاعر بھی تھے اور کلیم تخلص کرتے تھے۔ آخر عمر میں تصوف سے زیادہ شغف ہو گیا تھا اور امور خیر کی انجام دہی میں مشغول رہتے تھے۔ مصنف بھی تھے اور جو کتابیں تصنیف کیں، ان کا تعلق صالحین امت کے واقعات اور حسنات کی ترغیب سے ہے۔اُردو اور فارسی کے شعرا کے تذکرے بھی لکھے۔ مثلاً تذکرہ طور کلیم تذکرہ شعراء الفرس، شعراء ہند، تذکرہ نگار ستان سخن، یہ تذکرے فارسی زبان میں ہیں۔ ایک ضخیم کتاب کا نام”مجموعہ رسائل“ ہے۔اس میں تصوف کے بعض موضوعات پر بحث کی گئی ہے۔ آخر عمر میں بالکل خانہ نشین ہوگئے تھے اور فقیرانہ زندگی بسر کرنے لگے تھے۔ اپنے والد محترم نواب سید صدیق حسن خاں کی کتابوں کا بہت بڑا خزانہ ان کے سامنے تھا، اس سے استفادہ کرتے رہتے تھے۔ نواب شاہ جہاں بیگم کے انتقال کے بعد بھوپال سے لکھنؤ چلے گئے تھے اور وہیں سکونت اختیار کر لی تھی۔1330 ھ(96۔1895 ء) میں لکھنؤ میں انتقال ہوا۔[1] نواب صاحب کے دوسرے بیٹے نواب سید علی حسن خاں تھے جو 1283 ھ(1866ء)میں بھوپال میں پیدا ہوئے۔ علوم متداولہ کی تحصیل متعدد مشہور اساتذہ سے کی۔فارسی کے شاعر تھے اور طاہر تخلص تھا کئی کتابوں کے مصنف تھے تصانیف یہ ہیں: (1)مآثر صدیقی موسوم بہ سیرت والا جاہی۔ چار جلدوں پر مشتمل ہے۔ اس کتاب میں انھوں نے اپنے والد گرامی سید نواب صدیق حسن خاں کے حالات خاصی تفصیل سے بیان کیے ہیں۔(2)شریعۃ الاسلام، (3)فطرۃالاسلام، (4)سیرۃ الاسلام، |