Maktaba Wahhabi

280 - 665
(5)المدنیۃ فی الاسلام، (6)اسلام اور اس کا طریق عبادت، (7)انتظام خانہ داری، (8)نالہ دل، (9)خرمن گل(10)تعلیم و تربیت، (11)البیان۔ 19۔نومبر1936؁ء(3۔رمضان المبارک1355؁ ھ)کو اپنی کوٹھی بھوپال ہاؤس لال باغ لکھنؤ میں72برس عمر میں وفات پائی۔ سید احمد حسن عرشی اب نواب صاحب کے بھائی سید احمد حسن عرشی کے مختصر حالات ملاحظہ ہوں جو نواب صاحب آغاز تعلیم گھر ہی میں ہوا۔ پھر تکمیل علوم کان پور، فرخ آباد، بریلی اور علی گڑھ میں ہوئی۔ علی گڑھ میں حضرت شاہ عبدالجلیل سے سلسلہ تعلیم جاری رہا جنھوں نے 1857؁ء کی جنگ آزادی میں انگریزی حکومت سے جہاد کرتے ہوئے علی گڑھ میں جام شہادت نوش کیا۔ کتب حدیث شیخ عبدالغنی مجددی دہلوی سے ان کے زمانہ قیام مدینہ منورہ میں پڑھیں۔ اسی دور میں شیخ محمد عابد سندھی (متوفی ماہ ربیع الاول 1257؁ ھ) سے سند واجازہ حدیث حاصل ہوا۔ دہلی کے بعض علمائے کرام سے بھی استفادہ کیا۔ عربی، فارسی اور اُردو تینوں زبانوں میں شعر کہتے تھے۔ فارسی اور اُردو میں مرزا غالب سے مشورہ سخن حاصل تھا۔ خود فرماتے ہیں: مغلوب ہیں سب اہل جہاں میرے سخن سے ہوں زلہ رُبا غالب اعجاز رقم کا زیارت حرمین شریفین کے بے حد شائق تھے۔ تیسری مرتبہ با ارادہ حج گھر سے روانہ ہوئے۔ بڑودہ میں مولوی غلام حسین بن مولانا رستم علی قنوجی کے مکان پر ٹھہرے۔وہیں شدید بخار میں مبتلا ہو کر سفر آخرت پر روانہ ہوئے۔یہ حادثہ 9۔جمادی الاولیٰ 1277؁ ھ(23۔نومبر1860؁ ء)کو پیش آیا۔ صرف تیس سال عمر پائی۔[1] (اللّٰه مَّ اغْفِرْ لَهُ وَارْحَمْهُ وَعَافِهِ وَاعْفُ عَنْهُ) ایک عجیب واقعہ نواب صاحب کی وجہ سے بہت سے اہل علم بھوپال آئے اور بھوپال نے مجمع علما اور مرکز شعرا کی حیثیت اختیار کر لی۔ان میں سے متعدد حضرات کا تذکرہ ڈاکٹر رضیہ حامد نے اپنی کتاب ”صدیق
Flag Counter