Maktaba Wahhabi

278 - 665
سامنے ہی لکھا کرو۔ میں اس وقت مرأۃالنسواں لکھتا تھا۔پس میں نے ان کے رو برو لکھنا شروع کیا۔ظہر سے عصر تک ان کے کمرے میں لکھتا، پھر گھر جاتا، بعد عشاء کے پھر آجاتا تھا۔رات کو بھی چراغ کے روبرو بیٹھ کر ان کے سامنے لکھتا تھا۔ اس سے ان کو اُنس ہوتا۔اس اثنا میں باتیں بھی کرتے جاتے تھے۔ کئی دنوں سے اسی طرح ہوتا تھا۔کبھی فرماتے بھائی آدمی دو قسم کے ہوتے ہیں۔ایک تو مثل دوا کے جب بیمار ہوں تو ان کی حاجت ہواور ایک مثل غذا کے کہ کسی حالت میں اس سے چارہ نہیں ہے۔ ”میری یہی مثال ہے۔غرضیکہ چہار شنبہ بست و نہم ماہ جمادی الاخریٰ1307؁ ھ کو ناگاہ جی میں آیا کہ آج 3 بجے سے ان کے پاس جاؤں۔ چنانچہ جلدی سے کھانا کھاکر ان کے پاس حاضر ہوا تو تکیے پر سر رکھے تھے۔ میں نے سلام کیا تو سلام کا جواب دیا اور فرمایا اچھا ہوا سویرے آگئے۔ پھر باتیں کرتے رہے۔ بیقراری زیادہ تھی۔ دواعلاج ہوتا رہا، مگر کچھ نفع نہیں ہوتا تھا۔ اسی طرح ہوتے ہوتے رات کے بارہ بج گئے۔اس وقت یا اس سے قبل کہا بھائی آگرہ سے ہماری کتاب نہیں آئی۔ میں نے کہا وہ چھپ گئی۔اس کا صحت نامہ بھی تیار ہو کر آگیا۔فرمایا اچھا ہوا۔ مہینہ پورا ہوا اور ہماری تالیف بھی پوری ہوئی۔پھر کوئی دوا لایا تو پی لی۔ذرا دیر بعد میں نے کہا کچھ آپ کو تسکین ہے؟فرمایا کسی قدر۔۔۔۔!پھر کہا اب دوانہیں پئیں گے۔اتنے میں ایک بج گیا۔ ذرا دیر بعد بیقراری ہوئی تو بسرعت ٹوپی سر سے اتار کر ڈال دی اور ذرا پاؤں پھیلائے اور چہرے پر پسینہ آیا۔ بکشادہ پیشانی بکمال درستی ہوش و حواس جان بحق تسلیم کی۔ اس وقت ایک بج کر 35منٹ ہو گئے تھے۔ اناللہ وناالیہ راجعون۔رحمۃ اللہ تعالیٰ۔ بعد نماز صبح غسل دیا گیا۔ نماز جنازہ میں ایک خلق کثیر تھی۔کئی بار نماز ہوئی۔ بروز پنجشنبہ یکم رجب 1307؁ ھ(18۔فروری 1890؁ء) کو قبل دوپہر اپنے خاص قبرستان میں مدفون ہوئے۔“ نواب صاحب نے عیسوی حساب سے 57برس چار مہینے چار دن اور ہجری حساب سے59برس ایک مہینہ نو دن عمر پائی۔ کتب خانہ اور اولاد نواب صاحب کا بہت بڑا کتب خانہ تھا جو ان کی وفات کے بعد دارالعلوم ندوۃ العلماء(لکھنؤ) میں منتقل کردیا گیا تھا۔ نواب صاحب کی اولاد دو بیٹے تھے اور ایک بیٹی۔ بیٹوں میں سے ایک کا نام سید نوار الحسن خاں
Flag Counter