مولانا عبدالحئی فرنگی محلی سے نواب صاحب کی علمی بحثیں جاری رہتی تھیں۔مولانا عبدالحئی صاحب کی وفات کا پتا چلا تو نواب صاحب نےنہایت حزن وملال کا اظہار فرمایا اور ان کی تعزیت کے لیے لکھنؤ کے فرنگی محل پہنچے، جہاں مولانا ممدوح سکونت پزیر تھے۔فرمایا:آج آفتابِ علم غروب ہوگیا۔ہمارا اور ان کا اختلاف فقط تحقیقاتِ مسائل تک محدود تھا۔مولانا کی غائبانہ نمازِ جنازہ پڑھی۔[1] حیاتِ طیبہ کے آخری ایام اور وفات اب نواب صاحب کی حیات طیبہ کے آخری ایام اور سانحہ موت کا تذکرہ اس کے شاگرد رشید سید ذوالفقار احمد نقوی بھوپالی کی زبانی سنیے۔سید ذوالفقار احمد نقوی بھوپال کے ممتاز عالم اور وہاں کے مجلس علماء کے رکن اعظم تھے۔ان کا تذکرہ میں اپنی کتاب”برصغیر کے اہل حدیث خدام قرآن“ میں کرچکا ہوں۔علمائے برصغیر کے حالات کے سلسلے میں ان کی ایک کتاب کا نام”قضاء الارب من ذکر علماء النحو والادب“ہے۔یہ کتاب اردو زبان میں ہے اور کتب حوالہ میں اس کا شمار ہوتا ہے۔انھوں نے نواب صاحب کے آخری ایام اور وفات کے متعلق اس کتاب میں جو کچھ تحریر فرمایا ہے، وہ ذیل میں درج کیا جاتا ہے۔نواب صاحب نے 17۔فروری 1890ء کو وفات پائی اور سید ذوالفقار احمد نقوی ان کی وفات سے 31سال سات مہینے تین دن بعد 24۔ستمبر 1921ء کو فوت ہوئے۔اب سید ذوالفقار احمد نقوی کی تحریر ملاحظہ ہو۔ ”شیخنا المرحوم کی آخری تالیف کتاب”مقالات الاحسان“ ہے۔یہ کتاب ترجمہ ہے فتوح الغیب کا جو کہ سیدنا ومولانا حضرت سید عبدالقادر گیلانی رحمۃ اللہ علیہ کی تالیف ہے۔جب اس کا طبع ہونا شروع ہوا تو میں نے اور انھوں نے اس کا مقابلہ کیا۔جب صحت نامہ کا وقت آیا تو وہ بیمار تھے۔میں نے اور ایک شخص نے اس کا مقابلہ ان کے روبروکیا۔مرض استسقا ہوگیا تھا۔نہایت ایذا ہوئی مگر بڑے مستقل مزاج تھے۔وفات کے وقت تک استقلال رہا۔ہراس اور بے صبری کا کلمہ ہرگز زبان سے نہیں نکلا۔ایام بیماری میں شب کو میں ان کے پاس رہتا تھا۔رات کو نیند نہیں آتی تھی اور نہ لیٹا جاتا تھا۔پلنگ پرقبلہ رخ بیٹھے رہتے۔سامنے تکیے رکھ لیتے تھے، ان پر سر رکھ لیا، کبھی اٹھالیا۔اسی طرح ساری رات بسر ہوتی تھی۔اکثر یاارحم الرحمین کہتے تھے۔بیماری کی اتنی شدت کے لکھنے کی طاقت نہیں مگر علم کا شوق وہی۔۔۔مجھ سے کہا بھائی تم آخر اور جگہ بیٹھ کر لکھتے ہوہمارے |