وحدہ لا شریک کو پسندیدہ ہو۔“ ابقاء المنن میں مزید فرماتے ہیں: ”صحبت اہل جہاں سے تہہ دل سے بیزار رہتا ہوں اور اہل علم کی صحبت کو دوست رکھتا ہوں۔۔۔ایسے لوگوں کی صحبت ہو جو مذاکرہ علمی یا ذکر الٰہی کریں۔“ اپنے احباب کے ساتھ بہت ہی خلوص ومحبت کا برتاؤ کرتے تھے۔احسان کے بدلے میں دوگنا چوگنا احسان کرنے کی سعی فرماتے۔ اکثر نمازِجمعہ خود پڑھایا کرتے۔رمضان المبارک میں تراویح ہمیشہ آٹھ رکعت پڑھتے اور نماز تہجد بارہ رکعت۔۔۔نماز فجر کے بعد تلاوتِ قرآن اور مختلف ادعیہ کی پابندی کرتے۔تقویٰ وتورّع کے اوصاف ان کے مزاج میں راسخ ہوچکے تھے۔ شرم وحیا کا اتنا غلبہ تھا کہ کسی بڑے یا چھوٹے مرتبے کے آدمی سے آنکھ ملا کر بات نہیں کرتے تھے۔دوسرے سے گفتگو کرتے وقت نگاہ ہمیشہ نیچی رکھتے۔ صلہ رحمی کا بہت خیال رکھتے۔بعض لوگ بطور قرض روپیہ لیتے اور پھر واپس نہیں کرتے تھے۔ایسے لوگوں کو وہ قرض معاف کردیتے تھے۔اپنے رشتے داروں سے بے حد محبت کا سلوک کرتے۔ روزانہ کےمعمولات نواب صاحب کے روزانہ کے معمولات یہ تھے کہ نمازِفجر سے پہلے جاگتے اور تہجد پڑھتے۔نمازِ فجر کےبعد تلاوت قرآن اوروظائف میں مشغول ہوجاتے۔اس سے فارغ ہوکر ایک گھنٹا وقائع نویسوں کی باتیں سنتے اور ریاست کے متعلق ضروری ہدایات دیتے۔پھر تصنیف وتالیف میں مصروف ہوجاتے۔دوپہر کے وقت کھانا تناول فرماتے اور کھانے کے بعد تھوڑی دیر قیلولہ کرتے۔پھر نماز ظہر پڑھ کر ریاستی معاملات میں مشغول ہوجاتے۔اس اثناء میں نمازِ عصر کا وقت ہوجاتا تو نماز پڑھ کر سیر وتفریح کے لیے تشریف لے جاتے۔مغرب کی نماز کے بعد ضروری خبریں سنتے۔پھر بچوں کواور دوسرے شائقین کو تقریباً ایک گھنٹا قرآن وحدیث کا درس دیتے۔بعض دفعہ علمائے کرام بھی درس میں شرکت کرتے۔درس کے بعد بسا اوقات شعر وشاعری کا دور بھی چلتا۔نماز عشاء کے بعد کھانا کھا کر سوجاتے۔ نواب صاحب دور طالب علمی میں دہلی میں نواب مصطفیٰ خاں شیفتہ کے گھر پر رہے تھے۔اس پر وہ ان کے نہایت شکر گزارتھے۔1857ء میں انگریزوں نے نواب مصطفیٰ شیفتہ کو گرفتار کرکے قید میں ڈال دیا نواب صاحب کو بے حد ذہنی اذیت پہنچی اور بھاگ دوڑ کرکے انھیں قید سے رہائی دلائی۔ |