میں مبتلا تھے، ایک صاحب کے گھر بلگرام میں مقیم تھے اور ہندوستان کے لوگ انگریزوں کے خلاف بغاوت میں اتنا آگے نکل گئے تھے کہ انھیں دیکھنا گوارا نہ کرتے تھے۔ایک دن نواب صاحب دریائے گنگا کے کنارے غسل کررہے تھے کہ ادھر سے چند ہندوستانیوں کا گزر ہوا۔انھوں نے انگریز سمجھ کر بندوق کی نالی ان کی طرف کردی۔اچانک ایک کسان نے دیکھ لیا۔وہ اونچی آواز میں پکارا دیکھنا گولی نہ چلانا۔یہ بڑے حضرت صاحب کے صاحبزادے ہیں، میں انھیں برسوں سے جانتا ہوں۔یہ سن کر وہ لوگ آگے بڑھ گئے اور نواب صاحب کی جان بچ گئی۔یوں سمجھیئے کہ زندگی دوبارہ ملی۔اس کے بعد انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نعت کےطور پر”القصیدۃ العنبریہ فی مدح خیر البریہ“ کے عنوان سے عربی میں ایک طویل قصیدہ قلمبند فرمایا اور اس قصیدے نے ان کی عربی تصانیف میں نمایاں جگہ پائی۔ لباس اورعادات واطوار اب نواب صاحب کے لباس اورعادات واطوار کے بارے میں ان کے بڑے صاحب زادے نواب علی حسن خاں کی زبانی سنیے جن کی وضاحت انھوں نے اپنی تصنیف مآثر صدیقی کے حصہ چہارم میں کی ہے۔ لباس سادہ اور سفید بہت پسند تھا۔کبھی رواج کے مطابق مختلف الوان اورنیم رنگ لباس بھی پہن لیا کرتے تھے۔البتہ اس کا خیال رہتا تھا کہ لباس خوش وضع اور خوش قطع ہو اور عطر سے معطر ہو۔عیدین کو عربی لباس زیب تن فرماتے تھے۔ خود فرماتے ہیں:” عربیت نسب اورعربیت زبان دونوں چیزیں ہمارے لیے باعث فخر ہیں۔“ کرتہ گھنڈی دار نیچی چولی کا، دہلی کی وضع کا انگرکھا۔دہلی کی وضع ہی کی گول ٹوپی اورقدرے تنگ پائچے کا پاجامہ زیب تن فرماتے تھے۔جوتا زیادہ ترامرتسر کا پنجابی ساخت کا استعمال کرتے تھے۔ ذہن کے صاف اور دل کے غنی تھے۔شیریں بیان، شریف الطبع اور حسن اخلاق کا عمدہ تریں نمونہ تھے۔حیا اور تواضع میں ان کے دور میں کوئی شخص ان کا ثانی نہ تھا۔حلم اور بردباری غصے پر غالب تھی۔بے حد منصف مزاج تھے۔اپنے مخالفین سے نہایت نرمی سے پیش آتے تھے۔اہل علم کی بہت ہی تعظیم وتکریم کرتے تھے۔ خود ابقاء المنن میں فرماتے ہیں: ”چونکہ اللہ تعالیٰ نے حسن عمل اور سوء عمل کو میزانِ سعادت وشقاوت قراردیا ہے، اس لیے میرا دل یہی چاہا کرتا ہے کہ مجھ سے وہ فعل ظہور میں آئے جو میرے معبودِحقیقی |