بھائی مولانا شاہ محمد یعقوب مہاجر مکی۔۔۔ان سے بذریعہ خط اجازہ حدیث حاصل کیا۔ نواب صاحب نہایت ذہین تھے اور حصولَِ علم کا بے حد شوق رکھتے تھے۔ قوت اخذ بہت تیز تھی اور حافظہ مضبوط تھا۔ اکیس برس کی عمر میں تمام مروجہ علوم پڑھ لیے تھی اور فارغ التحصیل ہوگئے تھے۔ بھوپال میں ملازمت اور اس کا اختتام حصول علم سے فراغت کے بعد نواب صاحب اپنے وطن قنوج چلے گئے تھے، لیکن گھر کی مالی حالت نہایت اذیت رساں تھی۔ اس لیے تھوڑا عرصہ وہاں رہے۔ پھر تلاش ملازمت کے لیے بھوپال آگئے۔ اس وقت ریاست بھوپال کے مدار المہام مولانا جمال الدین صدیقی دہلوی تھے(جو بعد میں نواب صاحب کے سسر ہوئے)بھوپال کی سرکار میں نواب صاحب نے ملازمت کی درخواست دی اور صفر 1272 ھ(اکتوبر1855ء) میں ان کو تیس روپے ماہانہ کی ملازمت مل گئی۔ کچھ مدت بعد حسن کار کردگی کی بنا پر عہدہ میر د بیرپر فائز کیے گئے اور خلعت عطا ہوا۔لیکن بعض وجوہ کی بنا پر 16محرم 1273 ھ(16دسمبر1856 ء)کو ایک سال بعد ملازمت ختم ہوگئی اور واپس گھر چلے گئے۔ اس زمانے میں ریاست بھوپال کی حکمران نواب سکندر بیگم تھیں۔انھوں نے سید صدیق حسن کو قنوج سے دوبارہ طلب کیا۔ گھر سے چل پڑے، لیکن راستے میں ایسی رکاوٹیں پیش آئیں کہ بروقت بھوپال نہ پہنچ سکے اور بعض حاسدوں کے کہنے سے ملازمت کا حکم منسوخ کردیاگیا۔ 19ربیع الاول 1275 ھ(18۔نومبر1858 ء)کو بھوپال سے نکلے اور ٹونک آگئے۔ ریاست ٹونک کا حکمران اس وقت نواب محمد وزیر خاں تھا۔ اس نے پچاس روپے ماہانہ تنخواہ پر انھیں ملازم رکھا اور ٹونک میں سکونت اختیار کرنے پر اصرار کیا۔ لیکن سید صدیق حسن کا دل اس ماحول سے مانوس نہ ہوا اور تھوڑے عرصے بعد چار ماہ کی رخصت کے لیے درخواست دی۔ اتفاق ملاحظہ ہو کہ اسی اثنا میں ریاست بھوپال کی والیہ نواب سکندر بیگم کی طرف سے پھر فرمان طلبی صادر ہوا۔ دورِ عروج یکم صفر 1276 ھ(27۔اگست1859 ء)کو نواب صدیق حسن بھوپال پہنچے۔ بھوپال میں ان کا یہ تیسرا ورود تھا، جسے آخری اور فاتحانہ ورود کہنا چاہیے۔57روپے ماہانہ تنخواہ مقرر ہوئی اور ریاست بھوپال کی تاریخ نگاری کا فریضہ ان کے سپرد کیا گیا۔ اب روز بروز ترقی کے دروازے ان کے لیے کھلنے لگے اور عروج نے دل کھول کر ان کا استقبال کیا۔ 25شبعان 1277 ھ(18۔مارچ 1861 ء) |