Maktaba Wahhabi

265 - 665
(1838؁ ء) میں قنوج میں فوت ہوئے۔ صرف 43 سال عمر پائی۔ سید اولاد حسن کی نرینہ اولاد دو بیٹے تھے۔بڑے سید احمد حسن سات برس کے اور صدیق عرشی اور چھوٹے سید صدیق حسن۔ باپ کی وفات کے وقت احمد حسن سات برس کے اور صدیق حسن پانچ برس کے تھے۔ نواب صدیق حسن کے ننہیال کا تعلق بانس بریلی سے تھا۔ان کے نانا مفتی محمد عوض عثمانی اپنے علاقے کے اور عہد کے ممتاز عالم تھے۔ دنیوی اعتبار سے بھی اونچی حیثیت کے مالک تھے۔ نواب صاحب کی ولادت انہی کے گھر بانس بریلی میں 19۔جمادی الاولیٰ (1248؁ ھ)(14۔اکتوبر 1832؁ ء)کو ہوئی۔ سید اولاد حسن کی وفات کے بعد یہ کم سن بچے انتہائی غربت کی زد میں آگئے تھے۔گھر میں اپنے اسلاف کی صرف کتابیں رہ گئی تھیں، وہ دیکھتے رہتے تھے اور وہ کتابیں ان کے دل میں تحصیل علم کا جذبہ پیدا کرتی تھیں۔ طلب علم کی راہ پر نواب صدیق حسن کچھ بڑے ہوئے تو اپنے محلے کے مدرسے میں حصول علم کا آغاز کیا۔بڑے بھائی سید احمد حسن عرشی سے بھی چند ابتدائی کتابیں پڑھیں۔ پھر ان کے والد (سید اولاد حسن) کے ایک عقیدت مند سید احمد علی انھیں اپنے وطن فرخ آباد لے گئے۔ وہاں کے بعض اساتذہ سے مختلف علوم کی کتابیں پڑھیں۔بعد ازاں سید احمد شہید کے ایک ارادت کیش ان کو کان پور لے گئے، وہاں کے چند اساتذہ سے استفادہ کیا۔ 1269 ؁ ھ(1853؁ ء)میں سید صدیق حسن عازم دہلی ہوئے جسے اس زمانے میں علم کے گہوارے اور علما کے مرکز کی حیثیت حاصل تھی۔ وہاں مفتی صدرالدین آزردہ کی خدمت میں حاضری دی اور ایک سال آٹھ مہینے ان سے تحصیل علم میں مصروف رہے اس اثنا میں ان سے تفسیر و حدیث کی بعض کتابوں کے علاوہ منطق و فلسفہ، صرف و نحو، معانی و بیان، فقہ و کلام اور عربی ادیبات کی متعدد کتابوں کی تکمیل کی اور سند لی۔ مفتی صدر الدین آزردہ کے علاوہ جن حضرات عالی مقام سے علوم تفسیر و حدیث کا اجازہ حاصل ہوا۔ ان میں سے بعض رفیع الدرجات علما کے اسمائے گرامی حسب ذیل ہیں: 1۔۔۔۔شیخ زین العابدین بن محسن بن محمد انصاری۔ 2۔۔۔قاضی محمد بن علی شوکانی یمنی کے شاگرد رشید شیخ عبدالحق محدث نیوتنی بنارسی۔ 3۔۔۔۔شیخ حسین عرب یمنی 4۔۔۔حضرت شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی کے نواسے اور حضرت شاہ محمد اسحاق دہلوی کے
Flag Counter