سے عمل کرتی تھیں۔ اسلام کے اصولی اور فروعی مسائل پر انھیں عبور حاصل تھا۔ مسلمانوں کے عام معاملات میں بے حد دلچسپی رکھتی تھیں۔1857ءکی جنگ آزادی کے بعد دہلی کی جامع مسجد انگریزوں نے نمازیوں کے لیے بند کردی تھی۔ یہ مسجد پانچ سال بندرہی۔نواب سکندر بیگم دہلی گئیں تو ان کوشش سے مسجد واگزار کی گئی اور لوگ اس میں نماز پڑھنے لگے۔ حضرت نواب صدیق حسن خاں1856ءمیں نواب سکندر بیگم کے عہد ہی میں بھوپال آئے اور دربار سکندری سے منسلک ہوئے۔ ان کی آمد پر ایک ”دفتر تاریخ“ قائم کیا گیا، جس کے وہ منتظم اعلیٰ ہوئے۔نواب سکندر بیگم کی بیٹی نواب شاہ جہاں بیگم کا شوہر فوت ہو گیا تھا، پھر نواب صاحب سے عقد ثانی ہوا۔ نواب صاحب کے بارے میں ضرور باتیں ریاست بھوپال کی اس مختصر تاریخ کے تذکرے کے بعد اب آئیے نواب سید صدیق حسن خاں کی طرف۔۔۔! نواب صاحب دنیائے اسلام کے کثیر التصانیف مصنف ہیں۔ ان کی چھوٹی بڑی تصانیف کی کل تعداد 230 کے لگ بھگ ہے۔ان میں سے سات قرآن مجید کے متعلق، تینتیس حدیث شریف کے بارے میں تیس عقائد کے سلسلے میں بائیس عام فقہی مسائل کے موضوع پر گیارہ رد تقلید کے متعلق، بائیس تاریخ وسیر کے متعلق تیرہ مناقب و فضائل کے سلسلے میں بائیس علوم وادب کے بارے میں، اڑتیس اخلاقیات کے موضوع پر، چھ سیاست کے موضوع پر ایک شیعیت کے سلسلے میں اور سترہ کتابیں تصوف کے موضوع پر ہیں۔ ان کے علاوہ بعض چھوٹے چھوٹے رسائل بھی مختلف عنوانات سے متعلق تصنیف فرمائے۔ نواب صاحب کا سلسلہ نسب تینتیس واسطوں سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچتا ہے نواب صاحب کے والد مکرم کا اسم گرامی سید اولاد حسن تھا جو 1210ھ(96۔1795ء)میں ہندوستان کے شہرقنوج میں پیدا ہوئے۔قنوج اور لکھنؤ کے بعض معروف اساتذہ سے حصول علم کے بعد سید اولاد حسن 1233 ھ(1818ء) میں دہلی گئے۔وہاں حضرت شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی اور شاہ رفیع الدین رحمہم اللہ سے استفادہ کیا اور شاہ عبدالقادر دہلوی کی زیارت سے مشرف ہوئے۔ امیر المجاہدین سید احمد شہید کے ہاتھ پر بیعت جہاد کی۔7۔جمادی الاخریٰ1241 ھ(17۔جنوری1826ء)کومجاہدین کا جو پہلا قافلہ سید احمد شہید کی قیادت میں جہاد کے لیے آزاد قبائل کی طرف روانہ ہوا تھا، سید اولاد حسن اس میں شامل تھے انھوں نے کتاب و سنت کی تبلیغ واشاعت کے سلسلے کی سترہ کتابیں تصنیف کیں۔1253 ھ |