Maktaba Wahhabi

263 - 665
نواب سکندر بیگم کی حکومت 18۔اپریل1835؁ء(18ذی الحجہ 1250؁ ھ)کو نواب جہانگیر محمد خاں سے سکندر بیگم کی شادی ہوگئی۔ اس کے ساتھ ہی ازروئے وصیت جہانگیر محمد خاں کو ریاست بھوپال کا نواب مقرر کیا گیا۔لیکن 9۔دسمبر1844؁ ء(28ذیقعدہ1260 ؁ ھ)کو عین عالم شباب میں جہانگیر محمد خاں کا انتقال ہو گیا۔ اس کی کوئی نرینہ اولاد نہ تھی، صرف ایک لڑکی تھی، جس کا نام شاہ جہاں بیگم تھا اور اس کی عمر اس وقت سات سال تھی اور وہ حکومت کا نظام چلانے کی اہلیت نہیں رکھتی تھی۔ اس لیے اس کی والدہ سکندر بیگم کو ریاست کی مختار مقرر کیا گیا۔ لیکن سکندر بیگم نے صرف مختاری پر اکتفا نہیں کیا بلکہ ریاست کی مستقل فرمانروائی کے لیے کوشش کی اور اس کوشش میں انھیں کامیابی حاصل ہوئی، انھوں نے ریاست پر اپنا دعواے فرمانروائی پُر زور اور مضبوط دلائل کے ساتھ پیش کیا، جسے انگریزی حکومت صحیح ماننے پر مجبور ہو گئی اور وہ نواب سکندر بیگم کہلائیں۔ اصلاحات اور سلسلہ تعلیم نواب سکندر بیگم بڑی منتظم اور سمجھ دار حکمران تھیں۔ انھوں نے ریاست میں بہت سی اصلاحات جاری کیں۔ ڈاک رسانی کا بہترین نظام قائم کیا، مختلف حکومتی دفاتر جدید طریقے سے قائم کیے، ریاست کے بلاد وقصبات کے نقشے بنائے، دفتری احکام میں مختصر نویسی کا حکم دیا طویل اور مسجع ومقفع عبارتوں سے بچنے کی تاکید کی۔رعایا کی سہولت کے لیے بعض نئے محکمے قائم کیے، ایک محکمہ احتساب قائم کیا۔ وہ علم و علما کی بہت قدر دان تھیں۔ بہت سے علما و شعراان کی دعوت پر بھوپال آئے اور انھوں نے اس شہر اور ریاست میں مستقل طور سے سکونت اختیار کی۔ نواب سکندر بیگم کو مطالعہ کتب کا بہت شوق تھا اور تصنیف و تالیف سے انھیں بڑی دلچسپی تھی۔ ریاست میں تعلیم عام کرنے کے لیے انھوں نے ہر گاؤں اور قصبے میں مدارس جاری کیے۔ان مدارس میں عربی، فارسی، اُردو، ہندی اور انگریزی تمام زبانوں کی تعلیم دی جاتی تھی۔انھوں نے 1851؁ء میں بھوپال میں مطبع سکندری کے نام سے ایک مطبع قائم کیا۔ ان کے داماداور ان کی بیٹی نواب شاہ جہاں بیگم کے شوہر باقی محمد خاں نے(جنھیں نواب امراؤدولہ کہا جاتا تھا) اپنے مصارف سے ایک بہت بڑا مدرسہ جاری کیا اور کتب خانہ قائم کیا جو بعد میں ضائع ہو گیا۔ نواب سکندر بیگم مذہبی اعتبار سے بہت مضبوط عقائد کی مالک تھیں اور احکام اسلام پر پابندی
Flag Counter