میں آئے تو وزیر محمد خاں نے مقابلہ کر کے انھیں شکست دی اور ریاست پر مکمل طور پر قبضہ کر لیا۔1815ء میں نواب وزیر محمد خاں کا انتقال ہو گیا۔ اب بھوپال کے عوام کی مرضی اور حمایت سے وزیر محمد خاں کے بیٹے نظر محمد خاں کو بھوپال کا نواب بنایا گیا۔ نظر محمد خاں اپنے باپ کی رفاقت و تربیت میں ریاستی حالات کے مختلف مراحل سے گزر چکا تھا اور بڑا زیرک اور مدبر شخص تھا۔اس نے اپنے اور اپنے باپ کے حریف نواب غوث محمد خاں کی بیٹی گوہر بیگم قدسیہ سے شادی کر لی۔جس کی وجہ سے تمام باہمی جھگڑے ختم ہو گئے۔اس کے بعد1818ء میں نواب نظر محمد خاں نے ایسٹ انڈیا کمپنی کے نمائندے یعنی گورنر جنرل سے دوستانہ طرز کا معاہدہ کر لیا، جس کی روسے ریاست بھوپال کی حفاظت کی ذمہ داری کمپنی نے لے لی اور امن و امان کی فضا پیدا ہوگئی۔ یہ سات نواب ریاست بھوپال کے ابتدائی دور کے حکمران تھے۔(1)دوست محمد خاں (2)یار محمد خاں(3)فیض محمد خاں(4)حیات محمد خاں، (5)غوث محمد خاں، (6)وزیر محمد خاں اور(7)نظر محمد خاں۔ان ساتوں حکمرانوں کے عہد میں بھوپال کو مجمع العلما کی حیثیت حاصل رہی اور علم وادب نے فروغ پایا۔ نواب قدسیہ بیگم کی حکومت نواب نظر محمد خاں نے ساڑھے تین سال حکومت کی۔ لوگ اس کے طریق حکومت سے بہت خوش تھے۔ لیکن اچانک طنپچہ (پستول) چلنے سے11۔نومبر1819ءکو اس کا انتقال ہو گیا۔اس نے صرف 28سال عمر پائی۔اس کا کوئی بیٹا نہ تھا، صرف ایک بیٹی تھی، جس کا نام سکندر بیگم تھا، باپ کی وفات کے وقت اس کی عمر ایک سال تین مہینے تھی، اسے اپنے باپ کا جانشین مقرر کیا گیا، لیکن چونکہ وہ حکومتی کاروبار نہیں چلا سکتی تھی، اس لیے ایسٹ انڈیا کمپنی کی اجازت سے نواب نظر محمد خاں کی بیوہ قدسیہ بیگم ریاست کی مختار مقرر ہوئیں اور تمام امور حکومت انھوں نے اپنے ہاتھ میں لے لیے۔ان کے عہد حکومت میں رعایا کو بڑی سہولتیں حاصل ہوئیں۔ بہت سے اہل علم اور اصحاب فضیلت کو مختلف مقامات سے بلا کر بھوپال میں آباد کیا گیا اور جگہ جگہ مدارس قائم کیے گئے اور تعلیم عام ہوئی۔ نواب قدسیہ بیگم کا زمانہ ریاست بھوپال کے لیے رحمت خداوندی کا زمانہ تھا۔یہ ایک محب وطن اور دین دار حکمران تھیں۔مکہ معظمہ اور مدینہ منورہ میں انھوں نے رباطیں تعمیر کرائیں۔[1](یعنی حاجیوں اور مسافروں کی رہائش کے لیے مسافر خانے بنوائے۔) |