خلاف تھا۔ مولانا ابو محمد ابراہیم آروی نے جراءت کر کے اس خلاف شرع رسم کے خلاف آواز بلند کی۔ مولانا ایک معزز گھرانے کے فرد تھے اور اس رسم کی مخالفت کرنا نہایت مشکل تھا۔ لیکن انھوں نے اس رسم بد کو ختم کرنے کا آغاز اپنے گھر سے کیا اور سب سے پہلے اپنی بیوہ بہن کا نکاح کیا۔ حالانکہ وہ کبرسنی کو پہنچ گئی تھی اور عابدہ و زاہدہ خاتون تھی۔ اپنی ایک بیٹی کا بھی عقد ثانی کیا۔ اپنے مرحوم بھائی کی بیوہ کو ایک شخص کے نکاح میں دیا۔خود ایک شریف بیوہ عورت کو اپنے عقد میں لائے۔ یہ نہایت جراءت مندانہ اور حوصلے کاکام تھا جو مولانا نے انجام دیا۔ اس کے بعد آہستہ آہستہ اس قبیح رسم کا خاتمہ ہوگیا اور بے شمار لوگوں نے اپنی بیوہ بیٹیوں اور بہنوں کے نکاح ثانی کیے۔ مولانا ابو محمد ابراہیم آروی جہاں ممتاز مدرس اور بہت بڑے واعظ و مقرر تھے، وہاں نامور مصنف اور مترجم بھی تھے۔ان کی بیس تصانیف کا پتا چلتا ہے، جن میں قرآن مجید کے چند پاروں کی ایک تفسیر بھی ہے جو تفسیر خلیلی کے نام سے موسوم ہے اور اس کا ذکر ہم اپنی کتاب”برصغیر کے اہل حدیث خدام قرآن“میں کر چکے ہیں۔[1] مولانا آروی کی تصانیف مندرجہ زیل ہیں: 1۔۔۔تفسیر خلیلی : یہ قرآن مجید کے پہلے، دوسرے، اُنتیسویں اور تیسویں چار پاروں کی تفسیر ہے۔ 2۔۔۔طریق النجاۃ: یہ مشکوٰۃ شریف کے کچھ حصے کااُردو ترجمہ ہے۔ 3۔۔۔تفسیر ابن کثیر: ترجمہ پار ہ اول۔ 4۔تلقین التصریف: علم صرف کے موضوع پر ایک رسالہ۔ 5۔۔۔تہذیب التصریف:اس کا تعلق بھی علم صرف ہے۔ 6۔۔۔ارشاد الطلاب: یہ رسالہ علم نحو کے بارے میں ہے۔ 7۔ارشاد الطلب الیٰ علم الادب : اس کا تعلق بھی علم نحو سے ہے۔ 8۔۔۔تسہیل التعلیم : 9۔۔۔طرز معاشرت : معاشرتی امور سے متعلق 10۔۔۔یتامی : یتیموں کے حقوق و معاملات کے بارے میں۔ 11۔۔۔خیرالوظائف: 12۔۔۔صلوٰۃ النبی: |