”حضرت مولانا ہمارے بزرگان سلف اور صوفیائے کرام کے صحیح طور سے نقش قدم پر تھے۔“ حضرت مولانا ابو محمد ابراہیم آروی کے جاری کردہ مدرسہ احمدیہ سے متعدد بڑے بڑے علماءنے تحصیل علم کی اور کئی جید علمائے عظام اس میں خدمت تدریس سر انجام دیتے رہے، جن میں حضرت مولانا حضرت شاہ عین الحق پھلواروی کا بھی(جنھیں صحیح معنوں میں بہار کے ابراہیم بن ادھم کہا جا سکتا ہے) کچھ عرصہ اس درسگاہ میں فیض درس جاری رہا۔ آرہ میں مولانا ابو محمد ابراہیم آروی پہلے عالم دین ہیں، جنھوں نے رمضان المبارک کے آخری عشرے میں شب قدر کے لیےبیداری اور عبادت وقرآن خوانی کا اہتمام کیا۔ورنہ اس سے قبل لوگ شب برات (شعبان کی چودھویں رات)کو جاگتے اور مصروف عبادت رہتے تھے۔ رمضان کے آخری عشرے کی راتوں کو مولانا خود جاگتے اور لوگوں کو تہجد و نوافل پڑھنے کی تلقین فرماتے۔ ان راتوں میں مولانا وعظ فرمایا کرتے اور ان کا وعظ نہایت مؤثر ہوتا تھا۔ان کو دیکھ کر شہرکی دوسری مسجدوں میں بھی رمضان کے آخری عشرے کی راتوں میں بیداری اور تلاوت قرآن کا التزام ہونے لگا۔ مولانا ابو محمد ابراہیم آروی کا وعظ لوگ انتہائی شوق اور انہماک سے سنتے اور تاثر کا یہ عالم تھا کہ نماز کے وقت بازاروں اور گلیوں میں سبزی بیچنے والی عورتیں مصلے بچھا کر نماز پڑھنا شروع کردیتیں۔[1] سید سلیمان ندوی”حیات شبلی“میں رقم فرماتے ہیں کہ مولانا ابو محمد ابراہیم آروی نہایت پردردوعظ کہتے تھے وعظ میں خود روتے اور دوسروں کو رلاتے۔ ندوہ کے اجلاس منعقدہ 1311 ھ کے پہلے اجلاس میں مولانا ابو محمد ابراہیم آروی نے دلپذیر وعظ فرمایا۔[2] سید صاحب فرماتے ہیں 1317 ھ میں بھوپال کی مجلس نظارۃ المعارف قائم ہوئی(جو ایک تعلیمی مجلس تھی)اس کے ایک رکن مولانا ابو محمد ابراہیم آروی تھے، مولانا شبلی بھی اس مجلس کے رکن تھے۔ مولانا ابو محمد ابراہیم آروی کے زمانے اور علاقے میں ایک مدت سے یہ غلط رواج چلا آرہاتھا کہ کسی عورت کا شوہر فوت ہوجاتا تو اس کا نکاح ثانی نہیں کیا جاتا تھا، اگرچہ وہ کسی عمر کی ہوتی، تمام عمر گھر میں بیٹھی رہتی تھی۔ یہ نہایت قبیح رسم تھی جو ہندوؤں کی دیکھا دیکھی مسلمانوں میں آئی تھی۔ شریف اور کھاتے پیتے گھرانوں میں تو نکاح بیوگان کا تصور بھی نہیں کیا جاتا تھا۔ کیونکہ یہ ان کی عزت کے |