حضرت مولانا محمد بشیر فاروقی بہت سے خصوصیات کے حامل اور متعدد اوصاف حسنہ کے مالک تھے۔ مہمان نواز، اہل علم کے قدر دان، ہر مسلک فقہ کے علما سے محبت و تعلق رکھنے والے ظریف الطبع، متواضع، ایثار وکرم کے پیکر، غربا ومساکین کے ہمد رد و معاون، خوش لباس، خوش کلام، کشادہ ذہن، لطیفہ گو، حاضر جواب۔ عُجب و خود نمائی سے نفور، اعزه و اقربا اور احباب سے حسن سلوک رکھنے والے۔ کتاب”حیات العلما“کے فاضل مصنف مولانا سید محمد عبدالباقی سہسوانی کئی سال ان کے ساتھ رہے اور آگرہ اور بھوپال کے زمانہ قیام میں ان کے حلقہ شاگردی میں شمولیت کا انھیں شرف حاصل ہوا۔دہلی میں بھی ان کے درس قرآن میں ان کو شرکت کے مواقع ملے۔ وہ اپنے عظیم المرتبت استاد کے حالات واوصاف بڑی تفصیل سے بیان کرتے ہیں۔ ان کی بعض تصانیف کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ”اس کے سوا دیگر بہت سے رسائل دینیہ آپ کے قلم سے نکلے جو بعض تلامذہ کی جانب منسوب ہیں۔“[1] یعنی ان کی جن تصانیف کا ذکر گزشتہ سطور میں کیا گیا ہے، ان کے علاوہ بھی کتنے ہی رسائل ہیں جو انھوں نے دینی مسائل سے متعلق تحریر فرمائے اور اپنے بعض لائق شاگردوں کے نام سے چھپوائے۔مولانا سید عبدالباری سہسوانی مزید لکھتے ہیں: راقم سطور نے آپ سے آگرہ بھوپال میں فنون عقلیہ و نقلیہ اکتساب کیے۔ دہلی میں آپ کے چشمہ فیض سے گروہ طلبا بلکہ تمام شہر مستفید ہوتا رہا۔ مختلف علوم و فنون کا درس دیتے اورہر روز بعد نماز صبح مسجد چوک میں ترجمہ و تفسیر قرآن بالحدیث دو گھنٹےبیان فرماتے اور اہل شوق دور دور سے آکر سنتے تھے۔[2] مولانا ممدوح کے زمانہ قیام بھوپال کے سلسلے میں فاضل مصنف لکھتے ہیں: ”طلبا ئے علم کو یہ طور خود درس تفسیر و حدیث وغیرہ سے مستفید فرماتے اور اجوبہ مسائل مستفتی بہا مجتہدانہ تحقیق کے ساتھ تحریرکرتے۔ہر جمعہ کو مسجد قاضی صاحب میں وعظ قرآن و حدیث کہتے۔“ ”مسائل شرعیہ میں اپنی تحقیق کو بے خطر ظاہر فرماتے اور منکرین پر تحریراً و تقریراً تمام |