Maktaba Wahhabi

221 - 665
سٹرک) میں متمکن ہوئے اور چھ سال (زندگی کے آخری دم تک) وہاں شائقین کو درس حدیث دیتے اور تفسیر قرآن سناتے رہے۔ ڈپٹی نذیر احمد مرحوم بہت بڑے عالم اورمعروف ادیب تھے۔ قرآن مجید کے متراجم اور مفسر بھی تھے۔[1] اپنے تبحر علمی کی بنا پر کسی عالم کو خاطر میں نہ لاتے تھے۔ جب انھیں پتا چلا کہ مولانا محمد بشیر حوض والی مسجدمیں درس قرآن دیتے ہیں تو طنزیہ انداز میں کہا دیکھیں گے ان کو کس طرح قرآن کی تفسیر بیان کرتے ہیں۔ لیکن جب ان کا درس قرآن سنا تو فریفتہ ہو گئے۔پھر باقاعدہ ان کے درس میں میں حاضر ہونے لگے۔ فرمایا کرتے تھے یہ ملانے مولوی محمد بشیر کو نہیں سمجھ سکتے، ان کی قدر مجھ سے پوچھو جوان سے قرآن پڑھ رہا ہوں۔ 1312؁ ھ کے پس و پیش مولانا بشیر فاروقی کا مرزا احمد قادیانی سے دہلی میں مناظرہ ہوا اس وقت مولانا ممدوح بھوپال میں تھے۔ مرزا قادیانی نے دہلی آکر اپنی مسیحیت کا ڈھنڈورا پیٹا تو اس کی اطلاع بھوپال میں مولانا کو بھی پہنچی اور والیہ بھوپال بیگم شاہ جہان کو بھی اس کا پتا چلاتو انھوں نے باشندگانِ دہلی کی درخواست پر مرزا غلام احمد سے مناظرے کے لیے مولانا بشیر کو دہلی بھیجا۔موضوع مناظرہ حیات و ممات مسیح تھا۔ مرزا صاحب تقریری مناظرے پر رضا مند نہ ہوئے تو تحریری بحث شروع ہوئی۔ مرزا صاحب نےپہلے تو حسب معمول تاویلات سے کام لیا لیکن جب مولانا کی گرفت مضبوط ہوئی اور انھوں نے حیات مسیح پر دلائل دینا شروع کیے تو مرزا صاحب یہ کہہ کر میدان چھوڑ گئے کہ ان کے خسر صاحب تشریف لارہے ہیں، اس لیے ان کے استقبال کے لیے دہلی کےریلوے اسٹیشن پر ان کا جانا ضروری ہے۔ مولانا نے”خسر“ کا لفظ سنا تو قرآن مجید کی یہ آیت تلاوت فرمائی۔ (خَسِرَ الدُّنْيَا وَالْآخِرَةَ ذَلِكَ هُوَ الْخُسْرَانُ الْمُبِينُ) [2] ” اس مناظرے کی کیفیت، اس کا پورا تحریری مواد اور مرزا صاحب کا اس سے فرار سب کچھ کتابی شکل میں شائع ہو گیا تھا۔ اس کتاب کا نام ہے۔“(الحق الصريح في إثبات حياة المسيح)یہ کتاب مطبع انصاری دہلی میں چھپی تھی۔
Flag Counter