دونوں علمائے کرام میں باہمی مودت والفت اور احترام واکرام کا رشتہ بھی بہت مضبوط تھا۔اس کا اندازہ اس سے کیجئے کہ مولانا فاروقی جب بھی لکھنؤ جاتے مولانا فرنگی محلی کے ہاں قیام فرماتے۔مولانافاروقی بہت بڑے واعظ تھے اور لوگ بے حد شوق سے ان کے وعظ میں شرکت کرتے اور اس سے اثرپذیر ہوتے تھے۔مولانا فرنگی محلی ان کوکئی کئی دن اپنے گھر اصرار کرکے بطور مہمان ٹھہراتے اورمختلف مقامات میں ان کے وعظ کراتے، خود بھی وعظ میں شرکت فرماتے۔ بعض مسائل میں حضرت نواب صدیق حسن خاں اور مولانا عبدالحئی فرنگی محلی کے درمیان بھی بحثیں ہوئیں۔ان دنوں مولانا محمد بشیر فاروقی بھوپال میں قیام فرماتھے۔مولانا فرنگی محلی کو شبہ ہواکہ ان کے اعتراضات کے جواب خود نواب صاحب نہیں دیتے بلکہ مولانا محمد بشیر فاروقی دیتے ہیں۔ مولانا فرنگی محلی نے کہیں یہ لکھ بھی دیا۔لیکن مولانا فاروقی نے اس سے انکار فرمایا اورمولانا فرنگی محلی کو یقین دلایا کہ اس بحث میں میرا کوئی حصہ نہیں ہے۔اس ضمن میں جو کچھ لکھتے ہیں، خود نواب صاحب لکھتے ہیں۔اس یقین دہانی کو مولانا فرنگی محلی نے قبول فرمایا اور معاملہ ختم ہوگیا۔ مولانا فاروقی کو بھوپال میں خدمت دین سرانجام دیتے بارہ سال کا عرصہ ہواتھا کہ یکم رجب 1307ھ(21۔فروری 1890ء) کو حضرت نواب صدیق حسن خاں نے سفر آخرت اختیار فرمایا اور اس کے ساتھ ہی مولانا فاروقی نے بھوپال کی سکونت ترک کرنے کا عزم فرمالیا۔لیکن نواب صاحب کی اہلیہ محترمہ(نواب شاہ جہاں بیگم) نے ان کو وہاں سے جانے نہیں دیا اور ان کا سلسلہ وعظ وتبلیغ جاری رہا۔اس طرح بارہ سال مزید گزرگئے۔29۔صفر 1319ھ(یکم جون 1901ء) کو نواب شاہ جہاں بیگم بھی اس دنیائے فانی سے رحلت کرگئیں تو ان کی جگہ نواب سلطان جہاں بیگم نے ریاست بھوپال کی زمامِ حکومت ہاتھ میں لی۔اب طرز حکومت بہت حد تک بدل گیا تھا۔پرانی بساط تقریباً الٹ گئی تھی اور نئے حالات پیدا ہوگئے تھے۔اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ علمائے دین بھوپال سے رخصت ہونے لگے۔اسی اثناء میں مولانا محمد بشیر فاروقی نے بھی رختِ سفر باندھ لیا۔ مولانا ممدوح نے پچیس سال کا طویل عرصہ بھوپال میں گزارا۔یہاں انھوں نے وعظ وتبلیغ، درس وتدریس اور تصنیف وتالیف کی صورت میں بے حد خدمات سرانجام دیں۔دہلی میں ان کے عالی قدر استاذ حضرت میں سید نذیر حسین رحمۃ اللہ علیہ جو ایک مدت سے علماء وطلباء کو مستفید فرمارہے تھے، پیرانہ سالی اور ضعف کی وجہ سے درس وتدریس کا سلسلہ جاری نہ رکھ سکتے تھے۔اس لیے وہاں کے لوگوں کا اصرار تھا کہ مولانا محمد بشیر فاروقی دہلی تشریف لائیں اور اپنے استاذ گرامی قدر کی مسند درس حدیث پر متمکن ہوں۔خود مولانا بھی دہلی جانے اور وہاں درس قرآن وحدیث اور وعظ وخطابت کا سلسلہ شروع کرنے کے خواہاں تھے۔چنانچہ وہ دہلی تشریف لے گئے اور مسجد حوض والی(نئی |