اور فاضل مقالہ نگار نے ان سے معلومات حاصل کی ہیں، اس اعتبار سے یہ مقالہ مستنداورصحیح تریں موادپر مشتمل ہے۔لہذاضروری اضافوں کےساتھ اسے عربی میں بھی شائع کرنا چاہیےاور اس کااردو ترجمہ بھی معرض اشاعت میں آنا چاہیے۔ حضرت مولانا مبارک پوری رحمۃ اللہ علیہ کےسانحہ ارتحال پر77 کاطویل عرصہ گزرچکاہے۔اب ان کےخاندان یاتعلق داروں یاشاگردوں میں معلوم نہیں کوئی ایسے بزرگ ہیں یانہیں، جنھوں نےحضرت مرحوم کی زیارت کی ہو، البتہ ان سطور کی تحریر تک پاکستان میں ایک جلیل القدر عالم موجود تھے جنھیں حضرت کی زیارت کا شرف حاصل تھا، وہ تھے حضرت مولانا عبدالغفار حسن رحمۃ اللہ تعالیٰ۔ ان کا ایک طویل انٹر ویو ماہنامہ”شہادت“(اسلام آباد) کےدسمبر 1996ء کے شمارے میں چھپا تھا جو اس کے چیف ایڈیٹر جناب خالد سیال نے ان سے کیا تھا۔انٹر ویو بہت سی معلومات کااحاطہ کیے ہوئے ہے اور نہایت دلچسپ ہے۔سوالات بھی اپنے اندر وزن رکھتے ہیں اور جواب بھی پروقار ہیں، زبان کے لحاظ سے بھی اوربیانِ واقعات کی صورت میں بھی۔۔۔! مولانا عبدالغفار حسن سے سوال کیاگیا: ”زندگی میں آپ کی پسندیدہ شخصیت کون سی رہی ہے“ مولانا جواب دیتے ہیں:” مولانا عبدالرحمٰن مبارک پوری کو میں بہت بڑا عالم سمجھتا ہوں۔وہ میرے پسندیدہ مصنف بھی ہیں، ان کی سوچ اور فکر بڑی متوازن تھی۔ایک لحاظ سے وہ میرے استاد بھی تھے۔وہ دارالحدیث رحمانیہ(دہلی) میں اکثر ٹھہرا کرتے تھے۔میں نے ان سے بہت کچھ سیکھا تھا۔ایک دفعہ انھوں نے ہمارا امتحان بھی لیاتھا۔میں ان کےزہد وتقویٰ اور علم سے بہت متاثر تھا۔وہ دنیا کے حریص نہیں تھے۔ان کی کتاب تحفۃ الاحوذی عرب ممالک میں بڑی معروف ہے ہم عصر اساتذہ اورعلماء میں ان کی شخصیت ہرلحاظ سے نمایاں اورممتاز تھی۔“ یہاں ایک بات عرض کرنے کو جی چاہتا ہے۔وہ یہ کہ علامہ سید سلیمان ندوی مرحوم نے ”معارف“ میں وفیات کے سلسلے میں بہت سے حضرات پر لکھا اور جس شخصیت پر لکھا(اختصار کے ساتھ یا کسی قدر تفصیل کے ساتھ) بہت خوبصورت انداز میں لکھا۔ان شخصیات میں علماء کے علاوہ غیر علماء بھی شامل ہیں بلکہ اس وسیع فہرست میں غیر مسلم بھی موجود ہیں اور یہ ایک منفرد سلسلہ وفیات ہے۔معارف میں شائع شدہ یہ تمام مواد کتابی صورت میں”یاد رفتگاں“کے نام سے چھپ گیا ہے۔سید صاحب مرحوم کی یہ قابل قدر تحریریں ہیں، لیکن تعجب ہے سید صاحب نے مولانا مبارک پوری کے بارے میں کچھ نہ لکھا۔خدا جانے ان کی توجہ اس طرف کیوں نہ گئی۔حالانکہ وہ ان کے بالکل قریب تھے۔مبارک پور کا قصبہ ضلع اعظم گڑھ میں ہے اور علم وعلماء کے اعتبار سے پرثروت قصبہ ہے۔ |