مصنف اور مورخ اسلام مولانا قاضی اطہر صاحب مبارک پوری سےکیا تو فرمایا:”بہت اچھا۔یہ ہمارے ذمہ ایک قرض تھا۔محنت سے کام کرو تو یہ علمی قرض ادا ہوجائے۔جو تعاون ہوسکے گا، کروں گا۔“اپنی کتاب”تذکرہ علمائے مبارک پوری“اور”میری طالب علمی:قاعدہ بغدادی سے صحیح بخاری تک“ ہدیۃً عنائیت فرمائی۔آہ !مولانا قاضی اطہر مبارک پوری اب اس دنیا میں نہیں رہے۔مورخہ 28۔صفر 1417ھ مطابق(14۔جولائی 1996ء) کو بروز یک شنبہ رات 9بجکر 55منٹ پر اپنے مالک حقیقی سے جاملے۔اناللہ وانا الیہ راجعون۔اللہ انھیں کروٹ کروٹ چین نصیب کرے۔وہ آج زندہ ہوتے تو اس علمی قرض کو ادا ہوتے دیکھ کر کتناخوش ہوتے۔“[1] ڈاکٹر عین الحق قاسمی کا یہ مقالہ اگست 1998ء کو لکھنو یونیورسٹی نے منظور کیا اور2002ءمیں مصنف نےاسے کتابی شکل میں شائع کردیاجو 260صفحات پر مشتمل ہے۔ فاضل مصنف حضرت مولانا مبارک پوری کا ذکر بے حد احترام سے کرتے ہیں اور انھیں بالعموم”مولانامحدث مبارکپوری“ لکھتے ہیں۔مولاناکی سندوں پر بھی”محمد عبدالرحمٰن“لکھا گیا ہے اور وہ خود بھی اپنا اسم گرامی اسی طرح تحریر فرماتے تھے، یعنی”محمد عبدالرحمٰن“۔ان کے نزدیک لفظ”محمد“ ان کے نام کا جز تھا، اس لیے لائق احترام مصنف ان کا نام نامی اسی طرح رقم کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ان کا یہی نام تھا۔ ڈاکٹر عین الحق قاسمی نے آخر میں”کتابیات“ کی فہرست درج کی ہے۔اس میں بتایا گیا ہے کہ حضرت مولانا مبارک پوری رحمۃاللہ علیہ کے ایک عزیزعبدالکبیرعبدالقوی مبارکپوری 1982ء میں مدینہ یونیورسٹی کے طالب علم تھے اور انھوں نے وہاں عربی میں مولاناکےمتعلق مقالہ لکھا تھا، جس کا عنوان ہے”حیات المحدث محمدعبدالرحمٰن المبارک فوری“۔صاحب مقالہ نے اپنایہ مقالہ ڈاکٹر عین الحق قاسمی کو برائے استفادہ بھیجا تھا۔اس مقالے کی ایک کاپی میرے پاس بھی ہے جو مجھےازراہ کرم مولاناعارف جاوید محمدی نے کویت سےارسال فرمائی ہے۔مقالہ پڑھ کر بےحد مسرت ہوئی، اس لیے کہ یہ حضرت مبارک پوری رحمۃاللہ علیہ کے خاندان کے ایک فاضل رکن کی کاوش فکرکانتیجہ ہے۔ لیکن گزارش یہ ہےکہ اس میں ضروری اضافے کرکے اب تک اسےشائع کیوں نہیں کیا گیا؟مقالہ پچیس چھبیس سال پہلے لکھاگیا تھا۔اس وقت حضرت مرحوم کےخاندان کےبھی اور خاندان کے علاوہ بھی بہت سےایسےحضرات موجود تھے۔جنھوں نےحضرت کوبہت قریب سےدیکھااور ان سےاستفادہ کیاتھا |