اس مقالے سے ہمارے دوست فاضل مقالہ نگار کو تو ذاتی طور سے بے شک فائدہ پہنچا۔ان کے رفقائے کار میں ان کی عربی دانی کی بھی شہرت ہوگئی ہوگی، لیکن حضرت مرحوم کےحالات سے آگاہ ہونے کے خواہش مندوں کو کیا فائدہ پہنچا۔۔۔؟ حال ہی میں مجھے برادرعزیز مولانا محمد عارف جاوید محمدی صاحب نے کویت سے ایک کتاب بھجوائی ہے، جس کا نام ہے”مولانا محمد عبدالرحمٰن محدث مبارکپوری۔حیات وخدمات“ یہ دراصل پی ایچ ڈی کا مقالہ ہے جو ڈاکٹر عین الحق قاسمی نے لکھنو یونیورسٹی کی طرف سے لکھا اور انھیں اس پر ڈاکٹریٹ کی ڈگری ملی،۔مقالہ بڑی محنت اور تحقیق سے لکھا گیاہے اورحضرت مولانا کی گھریلو اور عملی زندگی کے(غالباً) تمام گوشے اس میں آگئے ہیں۔بہت سی باتیں انھوں نے حضرت مرحوم کےاعزہ واقارب سےخود مل کر یا خط وکتابت کے ذریعے حاصل کی ہیں۔حضرت مولانا کا اور ان سے تعلق رکھنے والے حضرات کا تذکرہ ڈاکٹر قاسمی بےحد احترام سے کرتے ہیں۔اس موضوع پر انھوں نے مقالہ کیوں لکھا؟اس کی وجہ بیان کرتے ہوئےوہ پیش لفظ میں تحریر فرماتے ہیں: ”شکر ہے اس خدائے بزرگ وبرتر کا، جس نے اپنے ایک بہت ہی چھوٹے بندے کو ایک بہت ہی بڑے انسان کی حیات وخدمات لکھنے کی توفیق دی۔“ ”مولانا محمد عبدالرحمٰن محدث مبارکپوری(1283ھ۔۔۔1353ھ) رحمۃ اللہ علیہ کی حیات وخدمات پر لکھا گیا یہ مقالہ نہ کسی مرید کا ہے نہ شاگرد کا، نہ معتقد غالی کا ہےنہ شخصیت پرست کا، نہ فردخانہ کا ہے نہ عزیزورشتے دار کا، نہ ہم مسلک کا نہ مقلد جامد کا، نہ تملق پسند کاہےنہ بندہ غرض کا، بلکہ یہ ایک حق پسند اور حق جو طالب علم کا ہے، جس کی حیثیت علم وفن اور بحث وتحقیق کے میدان میں ایک مبتدی کی ہے۔اس مقالے میں مولانا محدث مبارک پوری کی حیات وخدمات کا”معروضی“ جائزہ لیا گیا ہے۔حقیقت یہ ہے کہ ان کی شخصیت جتنی عظیم رہی ہے، اتنی ابھی تک اس کی طرف توجہ نہیں کی جاسکی ہے۔ ”عرب وعجم میں ان کے علمی کارنامے بالخصوص”تحفۃ الاحوذی“ کی مقبولیت ہی ان کی شخصیت کا تعارف ہے۔ان کےتفصیلی سوانحی حالات ابھی تک لوگوں کے سامنے نہیں آسکے ہیں۔مقدمہ تحفۃ الاحوزی میں”ترجمۃ المؤلف“ کے عنوان سے جس قدر لکھا گیا ہے میری معلومات کی حد تک ابھی تک اس پر کوئی خاص اضافہ نہیں ہوسکا ہے۔ضرورت تھی کہ مولانا محدث مبارکپوری کی حیات وخدمات کاتفصیلی تعارف کرایا جاتا، چنانچہ میں نے اس کابیڑا اٹھایا اور کام شروع کردیا۔اس کاذکرجب میں نے مشہور |