ان سے استفادہ کرنا ہو تو ذرا بچ اور سنبھل کر۔“[1] مرحوم و مغفور مولانا صفی الرحمٰن مبارک پوری نے قاضی اطہر مبارک پوری کی”جہالت“ کے ثبوت میں جو مثالیں بیان فرمائی ہیں، یہ فقیر ان پر اظہار رائے نہیں کرنا چاہتا، اس لیے کہ یہ گنہگار حضرت مبارک پوری رحمۃ اللہ علیہ کے خانوادہ ذی عظمت کے ہر فرد کو انتہائی احترام کا مستحق گردانتا ہے۔ اس موقعے پر میں صرف یہ عرض کرنے کی اجازت چاہوں گا کہ حضرت مولانا رحمۃ اللہ علیہ الفاظ کے استعمال میں بے حد محتاط تھے۔ان کے عقیدت مند بجا طور پریہ توقع رکھتے ہیں کہ ان کے گھرانے کے لائق احترام اہل علم اس باب میں ان کا تتبع کرنے کی کوشش فرمائیں گے۔انھیں خوب معلوم ہے کہ الفاظ کا کبھی قحط نہیں پڑا۔ علمائے لغت نے ہرزبان کے الفاظ بدرجہ غایت محنت اور احتیاط کے ساتھ کتب لغات میں محفوظ کر کے لکھنے اور بولنےوالوں کے حوالے کر دیے ہیں، ان الفاظ سے فائدہ اٹھانا اور مناسب اسلوب میں استعمال کرنا لکھنے اور بولنے والوں کا کام ہے۔ اس درجہ عظیم القدر خاندان کے کسی فاضل رکن کی تفہیم ہر گز میرا منصب نہیں۔ لیکن ان کی خدمت میں اتنی سی گزارش پیش کرنے کا حق تو بہر حال پہنچنا چا ہیے کہ”جہالت“ کی جگہ کوئی اور لفظ بھی استعمال ہو سکتا ہے۔مثلاً اس قسم کے مقامات پر ”سہو “کا لفظ بھی بولا جا سکتا ہے، ”غلط فہمی“ کہنے سے بھی مطلب حل ہو جاتا ہے، ”ناواقفیت“ کے لفظ سے بھی کام چلایا جا سکتا ہے، ”لغزش فہم“کی ترکیب سے بھی مددلی جا سکتی ہے۔ان سطور کے راقم کا نقطہ نظریہ ہے کہ کسی اہل علم کی طرف”جہالت“وغیرہ کے الفاظ منسوب کرنے سے اہل علم کے لیے دامن کشاں رہنا زیادہ مناسب ہے۔تحقیق و کاوش سے تعلق رکھنے اور تصنیف و تالیف میں منہمک رہنے والے شخص کی صاف لفظوں میں تجہیل کرنا میرے خیال میں حضرت مولانا عبدالرحمٰن مبارک پوری رحمۃ اللہ علیہ کے زاویہ فکر سے ہم آہنگ نہیں ہے۔پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے خوش بخت سیرت نگاروں پر تو خاص طور سے لازم آتا ہے کہ کسی چھوٹے بڑے کے بارے میں اظہار رائےکرتے وقت الفاظ کے انتخاب میں بدرجہ غایت احتیاط کا ثبوت بہم پہنچانے کی کوشش فرمائیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا طرز عمل اور اسوہ حسنہ یہی تھا۔ مولانا صفی الرحمٰن صاحب فرماتے ہیں۔”ان (قاضی اطہر مبارک پوری) سے استفادہ کرنا ہو تو ذرا بچ اور سنبھل کر۔“ گزارش یہ ہے کہ جس شخص کے پاس وہی کتاب ہے جو قاضی صاحب ممدوح نے لکھی ہے اور وہی اس کا ذریعہ استفادہ ہے، اس کے لیے مولانا صفی الرحمٰن کی نصیحت پر عمل کرنے یعنی بچنے اور |