نثری اور شعری اخباری تحریروں کے علاوہ”تراجم علمائے حدیث ہند“ پہلی کتاب ہے، جس میں مولانا ابو یحییٰ امام خاں نو شہروی نے حضرت کے متعلق مضمون لکھا۔ یہ کتاب پہلی مرتبہ ان کی وفات سے تین سال بعد 1938ء میں دہلی سے شائع ہوئی تھی۔ اس میں شائع شدہ مضمون صرف چھ صفحات پر مشتمل ہے، اس میں بھی دو صفحے اشعار نے لے لیے ہیں۔ مضمون اگرچہ بہت مختصر ہے تاہم حوالے کا مضمون ہے۔ عربی میں مقدمہ تحفۃ الاحوذی کے آخر میں ”ترجمۃ المؤلف“کے عنوان سے مولانا عبدالسمیع مبارک پوری کا مقالہ چودہ صفحات کا احاطہ کیے ہوئے ہے۔ نہایت جان دار اور پراز معلومات مقالہ ہے۔ عربی میں ڈاکٹر تقی الدین ہلالی مراکشی کا مقالہ”اہل الحدیث فی الہند “ہے جو ستمبر 1973ءکے”صوت الجامعہ“(بنارس) میں چھپا ، یہ تاثراتی اور واقعاتی مقالہ انتہائی اثر انگیز ہے۔ اس کے چند اقتباسات گزشتہ صفحات میں درج کیے گئے ہیں۔ جن کے پڑھنے سے مولانا مبارک پوری کی عظمت کا نقشہ آنکھوں میں پھر جاتا ہے۔ اس میں رفیع القدر شاگرد نے عظیم المرتبت استاد کی سیرت اور خدمات پر جس انداز میں روشنی ڈالی ہے، وہ انتہائی قابل قدر ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ انھوں نے اپنے محبوب و محسن استاذ کی خدمت میں دردو اخلاص میں ڈوبا ہوا نذرانہ پیش کر کے صحیح معنوں میں حق شاگردی ادا کیا ہے۔ اسی طرح مولانا امین احسن اصلاحی مرحوم کا مضمون (مطبوعہ اگست1955ء ہفت روزہ ”المنیر“فیصل آباد) حضرت مبارک پوری رحمۃ اللہ علیہ کے متعلق جہاں بہت سی علمی و تحقیقی معلومات کی وضاحت کرتا ہے، وہاں ان کے تواضع، انکسار اور علماو طلبا سے ان کی شفقت ورافت کا بھی آئینہ دار ہے۔ پھر حضرت رحمۃ اللہ علیہ کے ہم وطن وہم مسکن قاضی اطہر مبارک پوری مرحوم نے ”تذکرہ علمائے مبارک پور“میں جس جذبہ عقیدت اور خلوص قلب کے ساتھ حضرت مولانا اور ان کے خاندان کے اہل علم کا تذکرہ کیا ہے، اس سے یہ فقیر بہت متاثر ہواہے۔لیکن”الرحیق المختوم“کے فاضل مصنف مولانا صفی الرحمٰن مبارک پوری ایک مکتوب میں ڈاکٹر قاسمی کو تحریر فرماتے ہیں: ”قاضی اطہر نے”تذکرہ علمائے مبارک پور“میں مولانا (مبارک پوری) کا تذکرہ کرتے ہوئے کچھ جہالت ہی کا ثبوت دیا ہے۔“ اس سے آگے قاضی اطہر مبارک پوری کی ”جہالت “کے ثبوت میں چند مثالیں دے کر قاضی صاحب کے بارے میں رقم فرمایا ہے: ”اس طرز فہم سے اندیشہ ہے کہ ان صاحب نے مزید گل کھلائے ہوں گے، اس لیے |