تجہیز و تکفین اور تدفین اسی روز نماز عصر کے بعد تجہیز و تکفین کا مرحلہ طے ہوا۔ نماز جنازہ حضرت مولانا محمد احمدصاحب صدر المدرسین مدرسہ فیض عام مئونے پڑھائی، جس میں تمام مسالک فقہی کے لوگوں نے بہت بڑی تعداد میں شرکت کی۔ کہا جاتا ہے کہ اس علاقے کی تاریخ میں اس سے پہلے کسی کے جنازے میں انسانوں کا اتنا بڑا ہجوم دیکھنے میں نہیں آیا۔[1] حضرت مولانا کو ان کے آبائی قبرستان میں دفن کیا گیا اور قبر کے سرھانے تاریخ کا کتبہ نصب ہے، جس پر یہ الفاظ کندہ ہیں: ”حضرت مولانا عبدالرحمٰن صاحب المتوفی16۔ شوال1353۔1935ء“ (اللّٰه مَّ اغْفِرْ لَهُ وَارْحَمْهُ وَعَافِهِ وَاعْفُ عَنْهُ اللّٰه مَّ نُوْرُ قَبْرَهُ وَوَسِّعْ مُدْخَلَهُ وَأَدْخِلْهُ الْجَنَّةَ الفِردوس) ” حضرت مرحوم کی وفات پر متعدد اہل علم نے لکھا۔ تعزیتی مضامین بھی لکھے گئے اور اشعار کی صورت میں بھی عربی، فارسی، اُردو میں اظہار تعزیت کیا گیا۔ اس دور کے لکھنے والے سب بزرگان ذی مرتبت اپنی اپنی باری سے اللہ کے حضور پہنچ چکے ہیں، رحمہم اللہ تعالیٰ۔“ میری عمر حضرت کی وفات کے وقت دس سال سے کم تھی اور میں اپنے وطن کو ٹ کپورہ میں حضرت مولانا عطاء اللہ حنیف مرحوم ومغفور سے ابتدائی درسی کتابیں پڑھتا تھا۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ استاذ محترم کو حضرت کی وفات کی خبر پہنچی تو انھوں نے نہایت افسردہ لہجے میں بتایا تھا کہ جامع ترمذی کی شرح تحفۃ الاحوذی کے مصنف مولانا عبدالرحمٰن مبارک پوری وفات پاگئے۔ وہ تحفۃ الاحوذی کے علاوہ کئی کتابوں کے مصنف تھے۔ میں نے حضرت کا اسم گرامی سب سےپہلے جناب مولانا عطا ء اللہ حنیف مرحوم سے سنا تھا۔ پھر کاروان زندگی کچھ آگے بڑھا اور ذہن میں علمائے ذی اکرام کے حالات سے آگاہ ہونے کا جذبہ ابھراتو حضرت مرحوم کے واقعات کی جستجو شروع کی، جس کا سلسلہ اب تک جاری ہے۔ حضرت مولانا کے حالات جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے حضرت مولانا مبارک پوری کی وفات سے فوری بعد کی اُردو کی |