آنکھ کی تکلیف زندگی کے آخری دور میں حضرت مولانا مبارک پوری کو آنکھ کی تکلیف ہوگئی تھی، یعنی نزول الماء کے مرض میں مبتلا ہوگئے تھے، موتیا بند کہا جاتا ہے اور اس مرض کی وجہ سے پہلے ضعف بصارت ہوا، پھر تھوڑےعرصے میں بصارت ختم ہو گئی۔اس وقت وہ تحفۃ الاحوذی (شرح جامع ترمذی) کی آخر جلد لکھ رہے تھے۔اب انھوں نے اپنے عزیزوں حضرت مولانا عبید اللہ رحمانی مبارک پوری اور مولانا عبدالصمد مبارک پوری کی خدمت حاصل کیں اور ان کے تعاون سے اس کی آخری دو جلدیں مکمل فرمائیں۔ اس زمانے میں آنکھوں کے علاج نے زیادہ ترقی نہیں کی تھی۔ کہیں کہیں اس کا علاج ہوتا تھا۔حضرت مرحوم کے خاندان کے لوگوں نے بار بار کہا کہ لکھنؤیا دہلی جا کر آنکھ کا آپریشن کرایا جائے، دیگر حضرات نے بھی بہت اصرار کیا۔ لیکن مولانا مرحوم صبر وشکر سے کام لے رہے تھے اور اللہ کی رضا پر راضی تھے۔ اب چلنا پھرنا مشکل ہوگیا تھا اور تصنیف و تالیف کا تسلسل قائم رکھنے میں دشواری پیش آگئی تھی۔ آپریشن اور نظر کی بحالی اسی حالت میں رجب 1353ھ میں تحفۃ الاحوذی کی آخری جلد کی طباعت کے لیے دہلی کا عزم کیا۔ افراد خانہ اور سب رفقائے کرام نے مشورہ دیا کہ دہلی میں آنکھ کا آپریشن ضرور کرایا جائے۔چنانچہ دہلی جا کر ایک آنکھ کا آپریشن کرایا گیا۔ آپریشن کامیاب رہا اور بینائی بحال ہوگئی۔ سب نے اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا اور میل جول رکھنے والے تمام حضرات بے حد خوش ہوئے۔ اختلاجِ قلب اور وفات دہلی سے واپس وطن (مبارک پور) تشریف لائے تو اختلاجِ قلب کے دورے پڑنے لگے اور اس مرض کی شدت میں روز بروز اضافہ ہوتا گیا۔ شعبان کا آخری نصف شدید تکلیف میں گزارا، رمضان شریف میں بھی یہی کیفیت رہی۔ اس کے ساتھ ہی بخار ہونے لگا۔ تیزی کے ساتھ تکلیفیں بڑھنے لگیں اور لمحہ بہ لمحہ وقت موعود قریب آتا گیا۔ بالآخر یہ نیر تاباں جو تمام عمر تصنیف و تالیف اور درس و تدریس کی صورت میں دنیا میں روشنی پھیلاتا رہا تھا، 16شوال1353ھ(22۔جنوری 1935ء) کی رات کے آخری حصے میں ہمیشہ کے لیے غروب ہوگیا۔ اناللہ واناالیہ راجعون |