Maktaba Wahhabi

203 - 665
مولانا مبارک پوری طلبا سے جس شفقت کا اظہار فرماتے اور تعلیم کے سلسلے میں انھیں جس قسم کے صائب اور صحیح مشورے دیتے، اس سلسلے کا ایک واقعہ قاضی اطہر مبارک پور کا پڑھیے۔ وہ لکھتے ہیں: ”میں مولانا کی خدمت میں بسلسلہ علاج آتا جاتا تھا۔ کبھی کبھی یوں ہی چلا جاتا تھا۔“ایک مرتبہ مولانا نے پوچھا:’’ کو ن کون سی کتابیں پڑھتے ہو؟“میں نے کتابوں کے نام بتائے تو فرمایا:’’منطق میں بہت پیچھے ہو، اس میں محنت کرو۔“ان کی علمی مشغولیت اور تصنیفی انہماک دیکھ کر لکھنے پڑھنے کا حوصلہ ملا۔ ان کی زبانی سے پہلی بار عربی کا یہ مقولہ سناتھا: (مَنْ سَاوٰى يَوْمَاهُ فَهُوَ فِيْ الْخُسْرانُ)یعنی جس شخص کے دونوں دن برابر ہوں وہ نقصان میں ہے۔ہر اگلا دن پچھلے دن سے بڑھا ہونا چاہیے۔یہ جملہ آج تک کام دے رہا ہے۔[1] بلند ترین علمی مرتبہ اللہ نے مولانا مرحوم کی ذات میں بہت سے اوصاف جمع فرما دیے تھے۔ وہ تمام علوم مروجہ میں مہارت رکھتے تھے۔جن حضرات نے ان کی تصانیف کا مطالعہ کیا ہے، انھیں معلوم ہے کہ وہ اونچے درجے کے محقق اور بلند پایہ مصنف تھے۔تدریس کا بھی انھیں خاص ملکہ حاصل تھا۔ حدیث میں وہ درجہ امامت پر فائز تھے۔ ڈاکٹر تقی الدین ہلالی مراکشی فرماتے ہیں: ”میں اپنے رب کو شاہد بنا کر کہتا ہوں کہ ہمارے شیخ عبدالرحمٰن بن عبدالرحیم مبارک پوری رحمۃ اللہ علیہ اگر تیسری صدی ہجری کی شخصیت ہوتے تو آپ کی تمام وہ حدیثیں جنھیں آپ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یا آپ کے صحابہ رضوان اللہ علیہم سے روایت کرتے، صحیح تریں احادیث ہوتیں اور ہر وہ چیز جسے آپ روایت کرتے، حجت بنتی اور اس بات میں دو آدمیوں کا بھی اختلاف نہ ہوتا۔“[2]
Flag Counter