مقالے مطبوعہ ”صوت الجامعہ “(بنارس) میں فرمایا ہے۔ ذیل میں ڈاکٹر ہلالی صاحب کا بیان کردہ واقعہ ملاحظہ کیجیے جو بے حد اثر انگیز ہے۔ لکھتے ہیں: ”مبارک پور میں مولانا نے استفادے کی غرض سے میرے قیام کے دوران شدید اصرار کے ساتھ مجھے اپنے ہاں مہمان کی حیثیت سے رکھا۔ چنانچہ نہ مجھے کسی ہوٹل میں جانا پڑا اور نہ کھانا کہیں سے خریدنے کی نوبت آئی۔ جب مبارک پور سے میری روانگی کا وقت آیا اور میں نے فیصلہ کیا کہ اعظم گڑھ تک ٹرین سے جاؤں گا تو مولانا نے فرمایا کہ ٹرین سے نہ جاؤ ہماری جان پہچان کے دو آدمی بیل گاڑی لے کر اعظم گڑھ جانے والے ہیں، ان کے ساتھ چلے جانا۔یہ تمھارے لیے زیادہ آسان ہوگا۔ ادھر ان دونوں حضرات نے طے کیا تھا کہ آدھی رات کو نکلیں گے۔ چنانچہ عشاء کی نماز کے بعد میں نے مولانا کو الوداع کہنا چاہا تو فرمایا روانگی کے وقت میں رخصت کرنے آؤں گا۔ میں نے عرض کی آپ کو زحمت ہوگی، نیند میں خلل پڑے گا۔ فرمایا کوئی بات نہیں۔۔۔چنانچہ جب روانگی کا وقت ہوا اور میں اپنا بیگ اٹھا کر اپنے مسجد والے حجرے سے باہر نکلا تو مولانا کو موجود پایا۔ پھر ہم دونوں باتیں کرتے ہوئے وہاں پہنچے جہاں وہ دونوں حضرات گاڑی لے کر ہمارا انتظار کر رہے تھے۔ رخصت کے وقت جب انھوں نے میرا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر فرمایا: (أَسْتَوْدِعُ اللّٰه دِينَكَ وَأَمَانَتَكَ وَخَوَاتِيمَ عَمَلِكَ زوَّدك اللّٰه التقوى، ويسَّر لك الخير أينما توجهت ) ”تو اس کے ساتھ ہی انھوں نے چپکے سے میرے ہاتھ میں کوئی کاغذ تھمایا۔ میں نے محسوس کیا کہ نوٹ کی شکل میں کچھ رقم ہے تو میں نے واپس کرنا چاہا اور کہا ’’جزاک اللہ، آپ نے لطف و کرم کی انتہا کردی، اس کی کیا ضرورت ہے۔“اس پر انھوں نے میرا ہاتھ پکڑلیا اور ان دونوں حضرات سے کچھ دور ہوئے تو زور زور سے رونے لگے۔ ان کی آنکھوں سے آنسورواں تھے اور کہے جا رہے تھے۔“لے لو اسے، لے لو اسے۔“چنانچہ میں نے وہ روپیہ لے لیا۔ ان کا رونا دیکھ کر میرے بدن میں کپکپی طاری ہو گئی اور میں بہت شرمندہ ہوا کہ میرا روپیہ لوٹانا ہی ان کے اس شدید گریہ کا سبب بنا۔ چنانچہ میں نے ان سے معافی چاہی اور انھوں نے معاف کردیا۔ سسکیاں لیتے ہوئے آنکھوں سے آنسو پونچھے اور ذرا سنبھلے تو میرا ہاتھ پکڑا اور گاڑی کی طرف بڑھے۔ پھر میں نے ان کو الوداع کہا اور گاڑی پر سوار ہو گیا۔ یہ تمام خیالات اور انفعالات میرے ذہن میں گھومتے رہے یہاں تک کہ فجر کا وقت ہوگیا تو ہم لوگ نماز کے لیے رکے۔میں نے ان دونوں حضرات کی امامت کی۔ جب میں نے قراءت شروع کی تو اس واقعہ کے تصور سے روپڑا۔“[1] |