قابو ہو گئے، مشکل سے تکبیر پوری کر سکے۔ اس جنازے میں راقم بھی شامل تھا۔[1] حکیم عبدالحئی حسنی نے بھی نزہۃ الخواطر میں مولانا مبارک پوری رحمۃ اللہ علیہ کا تذکرہ کیا ہے۔ ان کے عربی الفاظ کا مطلب یہ ہے: مولانا عبدالرحمٰن مبارک پوری علمائے ربانیین میں سے ایک عالم باعمل، خشوع وخضوع کے پیکر، رقیق القلب، کثیر البکاء، سخی اور طلبا کے لیے ایثار پیشہ اور انتہائی خیر خواہ۔ خورش و پوشش میں تکلف سے دور، دنیا سے بے نیاز، عہد ہ ومنصب اور تنخواہوں کی حرص سے پاک۔ مطالعہ و تصنیف اور ذکر اللہ میں مشغول۔سلیم الطبع، صاحب اللسان مگر خاموشی پسند۔[2] قوتِ حافظہ حضرت مولانا مثالی قوتِ حافظہ کے مالک تھے۔ قاضی اطہر مبارک پوری رقمطراز ہیں: ان کی قوتِ حافظہ بھی خداداد تھی۔ بینائی سے محروم ہو جانے کے بعد بھی بعض درسی کتابوں کی عبارتیں زبانی پڑھایا کرتے تھے اور ہر قسم کے فتوے لکھوایا کرتے تھے۔[3] حضرت کے حافظے کے متعلق مولانا امین احسن اصلاحی اپنے زمانہ طالب علمی کے واقعات بیان کرتے ہوئے ہفت روزہ ”المنیر“ لائل پور کے اگست 1955ءکے شمارے میں تحریر کرتے ہیں: ”ان کا حافظہ اتنا اچھا تھا کہ آنکھوں کی معذوری ان کے لیے کوئی بڑی رکاوٹ نہیں بن سکتی تھی۔ مجھے بارہا ایسا موقع پیش آیا کہ کسی ضرورت کے لیے انھوں نے کوئی کتاب نکلوائی اوربڑی آسانی کے ساتھ محض اپنے حافظے اور اپنے اندازے کے بل بوتے پر مطلوبہ حدیث یا مطلوبہ عبارت تلاش کروالی۔ بعض اوقات وہ یہ تک بتا دیتے کہ فلاں عبارت یا فلاں حدیث صفحے کے کس جانب یا کس حصے میں ہوگی۔ان کا یہ احتضار میرے لیے اکثر حیرت کا باعث بنتا۔“ طلبا کے ساتھ شفقت۔۔۔ایک حیرت انگیز حضرت مولانا مبارک پوری طلبا کے ساتھ انتہائی مشفقانہ رویہ اختیار فرماتے اور ان سے نہایت شفقت کا اظہار کرتے تھے۔ اس کا تذکرہ مولانا امین احسن اصلاحی مرحوم نے بھی اپنے مضمون محررہ ”المنیر“ فیصل آباد(اگست 1955ء) میں کیا ہے اور ڈاکٹر تقی الدین ہلالی مراکشی نے بھی ایک |