Maktaba Wahhabi

200 - 665
کے بارے میں حضرت کے شاگرد مولانا امین احسن اصلاحی مرحوم کا مضمون شائع ہواتھا جو اپنے موضوع کا جامع مضمون تھا۔ مولانا اصلاحی اس میں رقمطراز ہیں۔ مولانا (مبارک پوری) حقیقی معنوں میں زاہد تھے۔ انھوں نے دنیا کمانے کی کوئی فکر نہیں کی۔آخر عمر میں تو تمام ترغیبات کو نظر انداز کر کے صرف فن حدیث کو لے کر اپنے حجرے میں معتکف ہو گئے تھے۔ ان کی زندگی نہایت درویشانہ اور غریبانہ تھی۔ حالانکہ اگر وہ چاہتے تو بڑے عیش و آرام کی زندگی بسر کر سکتے تھے۔ وہ پشاور سے لے کر کلکتے تک اہل حدیث علماء اور عوام کے مرکز عقیدت تھے اور سعودی حکومت بھی ایک زمانے میں ان کی خدمات حاصل کرنے کی متمنی تھی۔ لیکن وہ شرح ترمذی کا کام لے کر اس طرح دنیا سے منقطع ہو کر بیٹھ گئے کہ پھر موت کے سوا ان کے زاویے سے ان کوکوئی دوسرا نہ اٹھا سکا۔ مجسمہ صبر و شکر مولانا امین احسن اصلاحی مزید لکھتے ہیں: اہل علم سے ان کی گفتگو ہمیشہ زیادہ تر مشکلات سے متعلق ہوئی تھی۔ میں نے کبھی ان کی زبان سے کسی شخص کی غیبت یا ہجو نہیں سنی۔خرابی صحت، آنکھوں کی معذوری کام کی کثرت اور رفقائے کار کی قلت کا شکوہ بھی کبھی ان کی زبان سے نہیں سنا، حالانکہ یہ ساری تکلیفیں فی الواقع ان کو تھیں اور اگر نہ بھی ہوتیں تو بھی اگر وہ ان کا ذکر کرتے تو لوگ نہایت عقیدت سے ان کی بات سنتے مگر وہ مجسمہ صبر و شکر تھے، کبھی حرف شکایت زبان پر نہ لاتے۔ تقویٰ اور خشیت الٰہی حضرت مرحوم کے بارے میں قاضی اطہر مبارک پوری مرحوم کی کتاب”تذکرہ علمائے مبارک پور“میں مرقوم بعض باتیں پہلے بیان کی جا چکی ہیں۔ ان کا تعلق ان کے شہر مبارک پور سے تھا اور وہ انھیں خوب جانتے تھے۔ فرماتے ہیں: مولانا کی زندگی سلف صالحین کا نمونہ تھی۔ علم و فضل، تقوی و طہارت، زہد و قناعت، انزواوعزلت اور سادگی میں اپنی مثال آپ تھے۔ دنیا میں رہ کر دنیا سے بیگانہ۔درس و تدریس، تصنیف و تالیف، طبابت و حکمت زندگی کے مشاغل تھے۔ خشیت الٰہی کا غلبہ تھا۔سنا ہے جہری نماز نہیں پڑھاتے تھے، کیونکہ رودیا کرتے تھے۔ان کے ایک عزیز شیخ شبلی کا انتقال ہوا، مولانا نے ان کی نماز جنازہ پڑھائی تو آخری تکبیر میں بے
Flag Counter