کا وہی بابرکت نام ہے، دواخانہ مفید عام۔ خوش خطی حضرت مولانا مبارک پوری رحمۃ اللہ علیہ نہایت خوش خط تھے۔اُردو خط بھی بہت خوب صورت تھا اور عربی خط بھی۔۔۔!ڈاکٹر عین الحق قاسمی نے اپنے ڈاکٹریٹ کے مقالے میں ان کے اُردو عربی دونوں اسالیب خط کے نمونے دے دیے ہیں۔۔۔۔! حلیہ مبارک اور لباس افسوس ہے اس فقیر کو ان کی زیارت کا شرف حاصل نہیں۔لیکن خوشی کی بات ہے کہ قاضی اطہر مبارک پوری نے ان کا حلیہ مبارک بھی بیان کردیا ہے اور لباس بھی۔ قدمیانہ، بدن گداز، رنگ گندمی، چہرہ خوبصورت ابھرا ہوا۔سفید گاڑھے کا مغلئی پائجامہ، نیچا کرتا، گول ٹوپی، کندھے پر بڑا رومال، ہاتھ میں چھڑی۔[1] ڈاکٹر عین الحق قاسمی لکھتے ہیں کہ مولانا محمد عمر مبارک پوری نے جو حضرت محدث مبارک پوری کے مستفیدین میں سے تھے، راقم الحروف کو حضرت کا یہی جلسہ بتایا تھا۔[2] مولانا امین احسن اصلاحی ان کے حلقہ شاگردی میں رہے ہیں۔ وہ تحریر فرماتے ہیں: ان کا چہرہ نہایت معصوم تھا۔ بچوں کے سوا ان سے زیادہ معصوم چہرہ میں نے کسی کا نہیں دیکھا۔ان کو دیکھ کر ان سے بےساختہ محبت کرنے کو جی چاہتا تھا۔۔۔میں نے ان کی زبان سے کبھی ایک لفظ بھی ایسا نہیں سنا جس سے کم ازکم یہی ظاہر ہوتا ہو کہ وہ اپنے آپ کو ایک عالم ہی سمجھتے ہیں۔[3] اخلاق وعادات مقدمہ تحفۃ الاحوذی میں حضرت مولانا مبارک پوری کے حالات بیان کرتے ہوئے بتایا گیا ہے کہ حضرت مولانا رحمۃ اللہ علیہ عالی کردار اور بلند اخلاق عالم دین تھے۔ عمدہ ترین عادات و اطوار کے مالک۔ تقوی شعار، دنیوی مال و منال سے بے نیاز۔ کسی کی دولت کو قبول نہ فرماتے۔ دنیا کی کوئی حرص ان میں نہ تھی۔(پہلے بیان کیا جا چکا ہے کہ)دارالحدیث رحمانیہ دہلی اس وقت اہل حدیث کا |