Maktaba Wahhabi

197 - 665
حکیم عبدالسمیع صاحب نے مولانا عبدالرحمٰن صاحب ہی سے پڑھا تھا۔ وہ ہمیشہ مولانا کے ساتھ رہے، دوا باندھنے میں بھی اور دوسرے کاموں میں بھی۔ انھوں نے امراض چشم میں بڑی مہارت پیدا کر لی تھی۔ ایک سرمہ مشہور ہے جو پہلے حکیم محمد شفیع صاحب نے بنایا تھا، اسی کو مولانا عبدالرحمٰن صاحب نے جاری رکھا جو بعد میں ”حکیم عبدالسمیع کا سرمہ “کے نام سے مشہور ہوا۔[1] ضلع بستی کے ایک صاحب نے بذریعہ حضرت مولانا مبارک پوری سے کچھ دوائیں طلب کی تھیں اور دومریضوں کا مرض بتا کر مشورہ لیا تھا۔ ایک مریض کا نام دریاؤ تھا اور ایک کا جگو۔ خط لکھنے والے کا نام عبدالرحیم ہے۔ خط ملاحظہ فرمایے: مولانا صاحب ! السلام علیکم ورحمۃ اللہ برکاتہ۔۔۔دوائیں مطلوب ہیں۔ اطریفل کشنیزی (نصف پاؤ) اطریفل سنائی(ایک پاؤ) مریض دریاؤ جس کا مرض یہ ہے کہ کلیجہ و تمام جسم پھڑکنے لگتا ہے اور سنسناہٹ پیدا ہو جاتی ہے اور سر میں چکر آجاتا ہے۔ اس مرض کی دوا کا تخمینا آپ نے دو روپیہ میں ڈھائی تین تک کیا تھا۔ دوسرے مریض جگو ہیں، جن کی بیماری یہ ہے کہ وہ بالکل سست رہتے ہیں اور کسی سے بولتے نہیں اگر کام کرنے کو کہا جائے تو کرتے بھی نہیں، جن کی تشخیص آپ کر چکے ہیں، نوشادر (پاؤ معجون ملین) پاؤ خمیرہ گاؤ زبان(پاؤ) گل روغن (پاؤ) یہ سب دوائیں اور مریضوں کو لکھا گیا ہے۔ دریاؤ کی دوا کا وقت خوردو نوش۔ ہر ایک کی قیمت علیحدہ لکھی جائے تو از حد مشکور ہوں گا۔ پتا یہ ہے : ضلع بستی ڈاک خانہ لوٹن۔ مدرسہ اسلامیہ بھرا پور ہ مدرس عبدالرحیم کو ملے۔۔13۔ مارچ 1930؁ء[2] اللہ ! اللہ!! حضرت مولانا رحمۃ اللہ علیہ کے ساتھ ان دو غیر معروف مریضوں(دریاؤ اور جگو) اور تیسرے مکتوب نگار عبدالرحیم بھی تاریخ کا حصہ بن گئے۔ کسی نے کتنی صحیح بات کی ہے۔ صحبت صالح تراصلاح کند۔ حضرت مولانا رحمۃ علیہ کے دوخانے کا نام”دواخانہ مفید عام“تھا۔ آج بھی اس خاندان میں علم فضل کے ساتھ ساتھ طبابت کی قدیم روایت قائم ہے۔ ڈاکٹری سلسلہ بھی جاری ہوگیا ہے۔ یہ سلسلہ ڈاکٹر محمد تقی صاحب اعظمی اور حکیم سیف الرحمٰن احوذی کے ذریعے سے جاری ہے۔ ان کے دواخانے
Flag Counter