Maktaba Wahhabi

196 - 665
کے لیے خاص کر رکھا تھا۔تعجب ہے کہ مولانا کے تذکرہ نگاروں میں سے کسی نے بھی ان کی مہارت طب کا ذکر نہیں کیا، حالانکہ یہ ان کی نمایاں خصوصیت، بہترین صفت اور انبیاء و مرسلین بالخصوص خاتم النبیین حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتدا ہے کیونکہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام ارواح وابدان دونوں کے طبیب تھے۔یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ حضرت مولانا کو طب نفوس کے ساتھ طب ابدان کا بھی وافر حصہ ملا تھا جو دراصل نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی میراث ہے۔مولانا غریبوں سے علاج کی اجرت نہیں لیتے تھے، البتہ امیر لوگ جو اجرت دیتے وہ قبول فرما لیتے تھے۔ اسی طرح مولانا صاحب صحیحین کی اس حدیث پر پوری طرح عمل پیرا تھے۔جس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ سب سے بہترین کھانا آدمی کے اپنے ہاتھ کی کمائی کا ہے اور اللہ کے نبی داؤد علیہ السلام اپنے ہاتھ کی کمائی کھاتے تھے۔[1] ڈاکٹر رضاء اللہ مبارک پوری مرحوم ایک مکتوب میں جو انھوں نے 31۔دسمبر1993؁ءکو ڈاکٹر عین الحق قاسمی کے نام جامعہ سلفیہ بنارس سے ارسال کیا، لکھتے ہیں: استاذ محترم ڈاکٹر تقی الدین ہلالی رحمۃ اللہ علیہ فرمایا کرتے تھے اور شاید (الدعوة إلى اللّٰه في أقطار مُختلفة) نامی کتاب میں بھی لکھا ہے کہ مولانا طبابت کرتے تھے اور صرف دو تین گھنٹے دکان میں وقت دیتے تھے بقیہ اوقات تعلیم اور تالیف کتب میں گزارتے تھےاس کی تائید محترمہ پھوپھی صاحبہ کے بیان سے ہوتی ہے وہ کہا کرتی ہیں کہ چچا جان (یعنی مولانا صاحب ) ہفتے عشرے میں ایک دن ہم چھوٹی بچیوں کو دکان کرنے کا حکم دیتے تھے۔اس پر ہمیں بڑی خوشی ہوتی تھی، کیونکہ دکان کی صفائی کرتے وقت ادھر اُدھر سے پیسے ملا کرتے تھے جو ہمارے ہوتے تھے۔ اس لیے ہم اس دن کا بڑی شدت سے انتظار کرتے تھے۔ حضرت مولانا مبارک پوری کے بھتیجے حاجی عبدالسلام بن حکیم محمد شفیع صاحب فرماتے ہیں: حضرت مولانا رحمۃ اللہ علیہ کا اصل کام تصنیف و تالیف کا تھا۔ اس اثنا میں وہ کچھ طبابت بھی کر لیا کرتے تھے۔ طبابت میں نسخہ نویسی کی فیس بالکل نہیں لیتے تھے عطار جو آپ کے گھرانے ہی کا تھا دواؤں کے پیسے لیتا تھا۔
Flag Counter