Maktaba Wahhabi

195 - 665
”یہ میری اب تک کی معلومات کا خلاصہ ہے۔ مجموعے کو نقل کر لیا ہے، اب فتاوی نذیریہ سے ان کے فتاوے کو چھانٹ رہا ہوں، کیونکہ یہی مشورے کے بعد طے پایا ہے کہ مجموعہ اور فتاویٰ نذیریہ سے ان کے فتاویٰ کو الگ کر کے ایک ساتھ شائع کیا جائے۔ بروقت کتاب الجنائز کی تعریب[1]سے فراغت کے بعد اس کی تبییض میں لگا ہوا ہوں، اس سے فراغت مل جائے تو فتاویٰ پر لگوں گا۔“[2] طبابت وحکمت زمانہ قدیم میں علم طب کو بے حد اہمیت حاصل تھی۔ دینی تعلیم حاصل کرنے والے لوگ خاص طورسے اس علم کو مرکز توجہ ٹھہراتے اور طالب علمی کے دور میں یا فارغ التحصیل ہونے کے بعد اس علم کی کتابیں فن طب کے ماہرین سے باقاعدہ سبقاً سبقاً پڑھتے تھے۔ ان کتابوں میں موجز القانون حمیات شیخ کلیات نفیسی، معالجات سدیدی اور شرح اسباب وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ حضرت مولانا مبارک پوری رحمۃ اللہ علیہ کے خاندان کے پرانے اہل علم ان فن سے دلچسپی رکھتے تھے۔ حضرت مرحوم کے والد حافظ عبدالرحیم صاحب اپنے شہر اور علاقے کے مشہور طبیب تھے۔ مولانا مبارک پوری نے بھی یہ علم پڑھا۔یعنی یہ علم انھیں اپنے خاندان کی طرف سے ورثے میں ملا تھا۔اس کا ذکر قاضی اطہر مبارک پوری نے بھی کیا ہے۔[3] اس عہد کے اطبا زہد و تقوی کی دولت سے بھی بہرہ ور ہوتے تھے اور نادار مریضوں کا مفت بھی علاج کرتے تھے بلکہ اگر انھیں اپنے گاؤں یا گردوپیش کے کسی گاؤں کے مریض کا پتا چل جاتا تو خود اس کے گھر جاتے اور علاج کرتے یا اسے نسخہ لکھ کر دیتے۔ یہ کام چونکہ اخلاص پر مبنی ہوتا تھا، اس لیے ان اطبا کے علاج سے اللہ مریض کو صحت بخشتا تھا۔ حضرت مرحوم بھی طبیب تھے اور یہی ان کا ذریعہ آمدنی تھا چنانچہ حضرت کے شاگرد ڈاکٹر تقی الدین ہلالی مراکشی لکھتے ہیں: سوائے طبابت کے مولانا کا کوئی ذریعہ معاش نہیں تھا، اس کے باوجود جود وسخا میں جماعت علما میں کوئی ان کا ثانی نہ تھا۔ عصر سے مغرب تک کا وقت انھوں نے مریضوں
Flag Counter