تشریف لے گئے تھے) اچانک حرکت قلب بند ہوجانے سے انتقال کر گئے۔ وفات کے وقت ان کی عمرصرف 49برس تھی۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ ڈاکٹر صاحب مرحوم ایک مکتوب میں جو انھوں نے 31۔دسمبر1993ءکو ڈاکٹر عین الحق قاسمی کے نام ارسال فرمایا، لکھتے ہیں: ”جہاں تک فتوی نویسی کا تعلق ہے تو محدث حضرت مولانا مبارک پوری رحمۃ اللہ علیہ اس فن سے شروع ہی سے منسلک رہے، چنانچہ اپنے استاذ محترم جناب عبداللہ صاحب غازی پوری رحمۃ اللہ علیہ کے فتاوے کی تنسیق و ترتیب کاکام کیا تھا، جس کا ایک نسخہ ابھی جلد تک موجود تھا، مگر کچھ معترضین کی نظر[1]ہوگیا۔ اس کا کچھ پتا نہیں چل رہا ہے۔مولانا عبدالرحمٰن مبارک پوری [2]شاید اس سلسلے میں کچھ رہنمائی کر سکیں۔اس طرح دوسرے استاذ محدث مولانا نذیر حسین صاحب(میاں صاحب ) کے فتاوے کی ترتیب بھی آپ ہی نے دی تھی اور اس میں آپ کے فتاوے بھی مختلف اشکال میں ملتے ہیں، کبھی تائید کی شکل میں کبھی مخالفت [3] کی شکل میں اور کبھی مستقل آپ کے لکھے ہوئے فتاوے کی شکل میں، جس پر میاں صاحب کی تائید ہوتی ہے۔ اندازہ یہی ہے کہ فتاویٰ نذیریہ میں ایک ثلث (کم ازکم ) آپ کے فتاوے ملتے ہیں۔ ”میرے پاس جو مجموعہ ہے، بظاہر ایسا لگتا ہے کہ تایا محترم حکیم عبدالسلام صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے مختلف طریقوں سے انھیں جمع کیا ہے، کیونکہ ان میں کچھ فتوے ایسے ہیں جو کسی پرچے سے منقول ہیں او رکچھ ایسے ہیں جن کی نقول موجود تھیں، چنانچہ ان میں بعض فتوے ایسے بھی ہیں کہ مستفتی کے سوالات موجود نہیں ہیں اور صراحت کردی گئی ہے کہ سوالات کے کاغذات نہیں مل سکے، اس لیے صرف جوابات پر اکتفا کیا گیا ہے اور کچھ ردود(کذا؟)کی شکل میں ہیں۔“ ”فتوی نویسی میں بھی مولانا مرحوم نے اپنی محدثانہ روش کو نہیں چھوڑا ہے۔کتاب و سنت ہی کی روشنی میں ہر سوال کا جواب دینے کی کامیاب کوشش ہے۔ احادیث میں تحفۃ الاحوذی کا ہی سلوب پایا جاتا ہے یعنی روایت ودرایت کا اسلوب۔“ |