فتاوی نذیریہ کی ترتیب فتاوی کے سلسلے میں حضرت مولانا مبارک پوری کی ایک بہت بڑی خدمت یہ ہے کہ انھوں نےحضرت مولانا شمس الحق صاحب ڈیانوی کی فرمائش ہر اپنے استاذ عالی قدر حضرت میاں سید نذیر حسین صاحب دہلوی رحمۃ اللہ علیہ کے فتوے دو ضخیم جلدوں میں مرتب کیے اور جا بجا اپنے فتوے بھی ان میں شامل کیے۔علاوہ ازیں بہت سے مطول، متوسط اور مختصر فتوے خود لکھے، جن کا شمار میں لانا مشکل ہے۔[1] آخر عمر میں اپنےاستاذ مولانا حافظ عبداللہ غازی پوری کے فتوے حضرت مولانا مبارک پوری نے فقہی ابواب کی ترتیب سے جمع کیے تھے جو چھپ نہیں سکے۔[2] یہ معلوم نہ ہو سکا کہ حضرت حافظ صاحب غازی پوری رحمۃ اللہ علیہ کے فتاوے کا یہ مجموعہ کہاں ہے جو حضرت مولانا مبارک پوری نے فقہی ابواب کی صورت میں مرتب کیا تھا۔ اگر وہ موجودہے(اور مذکورہ بالا الفاظ سے اندازہ ہوتا ہے کہ موجود ہے) تو اسے شائع کرنا چاہیے۔ فتاوے کے سلسلے کا یقیناً یہ بہترین مجموعہ ہوگا۔اس کی اشاعت کی طرف توجہ فرمائی جائے تو یہ ایک عظیم دینی خدمت ہوگی۔ حضرت مولانا مبارک پوری کے فتاوے خود حضرت مولانا مبارک پوری رحمۃ اللہ علیہ نے فتاوی نویسی کے سلسلے میں بے حد علمی و تحقیقی کارہائےنمایاں سرانجام دیے۔مقدمہ تحفۃ الاحوذی میں بتایا گیا ہے کہ حضرت ممدوح فتویٰ نویسی کے معاملے میں بہت محتاط تھے۔بسا اوقات ایسا ہوتا کہ وہ کسی استفتا کا جواب لکھنا چاہتے تو اس کے متعلق اپنے پاس تشریف لانے والے علمائے کرام سے مشورہ کرتے اور اس کی تمام جزئیات پر غور و فکر کے بعد اس کا جواب تحریر فرماتے۔ یقیناً ان کے فتاوے کو بہت بڑے علمی سرمائے کی حیثیت حاصل ہے اور روز مرہ کی زندگی میں پیش آنے والے مختلف مسائل کے بارے میں ان کی تحقیق ایک جلیل القدر مجتہد عالم کی تحقیق ہے، ان کی جمع و تدوین اور اشاعت نہایت ضررو ی ہے۔ پتا چلا ہے کہ حضرت مرحوم کے پرپوتے ڈاکٹر رضاء اللہ صاحب مبارک پوری (استاذ جامعہ سلفیہ بنارس ) نے فتاوے کے اس ذخیرہ کی جمع و ترتیب کا کام شروع کردیا تھا۔ لیکن افسوس ہے30 مارچ 2003ءکو بمبئی میں(جہاں وہ جمعیت اہل حدیث کی دو روزہ کانفرنس میں شرکت کے لیے |