Maktaba Wahhabi

192 - 665
جائیں بلکہ ناف کے نیچے باندھے جائیں۔ مولانا مبارک پوری نے اپنے رسالے”تنقید الدرۃ الغرہ“ میں مولانا شوق نیموی کے اس رسالے پر تنقید فرمائی ہے۔ یہ قلمی رسالہ نامکمل ہے اور اُردو میں ہے۔ سلسلہ افتا قرآن، حدیث فقہ، ادبیات، خلافیات، درسیات ہر موضوع پر مولانا مبارک پوری وسیع نظر رکھتے تھے اور ہر اسلامی و فقہی مسئلے پر بے تکلف گفتگو فرماتے تھے۔ مسائل کے استخراج واستنباط میں مرتبہ اجتہاد پر فائز تھےتمام مسالک فقہ کی چھوٹی بڑی کتابیں ان کے زیر مطالعہ رہتی تھیں۔ تدریس و تصنیف کے ساتھ ساتھ ان کا سلسلہ افتا بھی جاری رہتا تھا اور ہر مسلک کے لوگ ان کی خدمت میں حاضر ہوتے اور مسائل پوچھتے تھے وہ بلا تامل سب کو جواب دیتے تھے۔ زبانی مسائل بھی بیان فرماتے تھے اور تحریری جواب سے بھی نوازتے تھے۔ قاضی اطہر مبارک پوری لکھتے ہیں: ”بینائی سے محروم ہو جانے کے بعد بعض درسی کتابوں کی عبارتیں زبانی پڑھا کرتے تھے۔اور ہر قسم کے فتوے لکھوایا کرتے تھے۔“[1] قاضی صاحب ممدوح آگے تحریر فرماتے ہیں: ہر مکتب خیال کے لوگ مولانا سے علمی مسائل دریافت کرتے تھے اور وہ ہر مسلک والے کو اس کے مسلک کے مطابق مسئلہ بتاتے تھے۔“[2] مولانا کے والد حافظ عبدالرحیم صاحب کو لوگ”بڑے حافظ صاحب“ کہا کرتے تھے اور مولانا ”بڑے مولانا صاحب “کے لقب سے متعارف تھے۔[3] مولانا صفی الرحمٰن صاحب مبارک پوری مسائل شرعی پر حضرت کی وسعت نظر کے بارے میں مولانا عبدالکبیر صاحب کو ایک خط میں لکھتے ہیں: ”شیعہ حضرات اپنے مسلک کے متعلق آپ کے بیان کردہ مسئلے کو اپنے علما کے بتلائے ہوئے مسئلے کے مقابل زیادہ صحیح سمجھتے تھے۔“[4]
Flag Counter