چار ضخیم جلدوں پر مشتمل ہے اور ایک جلد میں مقدمہ ہے۔مقدمہ 324 صفحات پر محیط ہے۔مقدمہ کے آخر میں حضرت مولانا مبارک پوری کے مختصر حالات زندگی مولانا ابوالفضل عبدالسمیع مبارک پوری کے رقم فرمودہ ہیں۔مقدمے سمیت اس کی پانچ جلدیں ہوئیں۔ جامع ترمذی کی متعدد حضرات علماء نے شرحیں لکھی ہیں۔حضرت مولانا مبارک پوری کو یہ شرح ضبط تحریر میں لانے کی تحریک اس وقت ہوئی تھی جب وہ گونڈہ اوربستی وغیرہ میں قیام فرماتھے۔مولانا نے اس کی تصنیف کا کام شروع بھی فرمادیا تھا۔لیکن اس کی تکمیل بعد میں ہوئی۔[1] تحفۃ الاحوذی کے مقدمے کا جو حصہ حضرت مولانا مبارک پوری اپنی بعض جسمانی کمزوریوں کی وجہ سے نہیں لکھ پائے تھے۔اس کی تکمیل حضرت کی وفات کے بعد حضرت مولانا عبیداللہ صاحب رحمانی اور مولانا عبدالصمد صاحب مبارکپوری نے فرمائی اور یہ مقدمہ 1359ھ میں جید برقی پریس دہلی سے شائع ہوا۔ تحفۃ الاحوذی مع مقدمہ کے بہت چھپی، بہت مقبول ہوئی اور بہت پڑھی گئی۔حضرت مصنف رحمۃ اللہ علیہ کا یہ عظیم الشان کارنامہ ہے اور حدیث رسول( صلی اللہ علیہ وسلم) کی بہت بڑی خدمت۔۔۔1404ھ میں یہ عظیم الشان کتاب ہمارے مرحوم دوست مولانا محمد صادق خلیل نے اپنے اشاعتی وتصنیفی ادارے”ضیاء السنۃ ادارۃ الترجمہ والتصانیف“ رحمت آباد فیصل آباد کی طرف سے شائع کی تھی۔ 2۔۔۔مقدمہ تحفۃ الاحوذی:اس کے متعلق بعض گزارشات گذشتہ سطور میں پیش کی جاچکی ہیں۔ 3۔۔۔ابکار المنن فی تنقید آثار السنن:یہ کتاب عربی زبان میں ہے اور اس میں مولانا ظہیر احسن شوق نیموی(متوفی 1322ھ) کی کتاب آثار السنن(جز اوّل) پر تنقید کی گئی ہے، جیسا کہ اس کےنام سے ظاہر ہے۔ مولانا ظہیر احسن شوق نیموی اس عہد کے مشہور حنفی المسلک عالم تھے اور مولانا مبارک پوری کے ہم عصر تھے۔انھوں نے ” آثار السنن“ کے نام سے بزعم خویش بلوغ المرام کے انداز میں کتاب لکھی، جس میں مسائل حنفیہ تقلید وغیرہ کی تائید میں ضعیف حدیثیں جمع کی گئی تھیں۔مولانا مبارک پوری نے”ابکار المنن فی تنقید آثار السنن“ کے نام سے اس کا جواب لکھا۔یہ کتاب تقریباً تین سوصفحات پر مشتمل ہے۔ 4۔۔۔تحقیق الکلام فی وجوب القراءۃ خلف الامام:یہ کتاب اردو زبان میں ہے اور دو حصوں میں ہے۔اس میں احادیث کی رو سے ثابت کیا گیا ہے کہ نماز میں امام کے پیچھے سورۃ فاتحہ پڑھنا |