حضرت مولانا مبارکپوری رحمۃ اللہ علیہ کی عمر مبارک کے بائیس تئیس سال درس وتدریس کی وادیوں میں گزرے اور اس اثناء میں مبارک پور، بستی، آرہ اورکلکۃ وغیرہ کی درسگاہوں میں انھوں نے جلیل القدر معلم کی حیثیت سے بے پناہ خدمات سرانجام دیں اور علماء وطلباء کی کثیر تعداد نے ان سے شرف تلمذ حاصل کیا۔ان حضرات میں مولانا عبدالسلام مبارک پوری، ڈاکٹر تقی الدین ہلالی مراکشی، مولانا عبیداللہ رحمانی، مولانا نذیر احمد رحمانی، املوی، محترمہ رقیہ بنت علامہ خلیل عرب، مولانا عبدالجبار کھنڈیلوی، مولانا حکیم عبدالسمیع مبارکپوری، مولانا محمد امین اثری، مولانا امین احسن اصلاحی، مولانا محمد اسحاق اثری، مولانا عبداللہ نجدی، مولانا شاہ محمد سریانوی، مولانا حکیم عبدالرزاق صادق پوری شامل ہیں۔پھر آگے چل کر ان میں سے ہر عالم نے تدریسی، تصنیفی اور تبلیغی شعبوں میں بے حد تگ ودود کی اور لوگوں نے ان سے بہت فیض پایا۔ حضرت مولانا کی تصنیفی جدوجہد آئیے اب آئندہ سطور میں حضرت مولانا مبارک پوری رحمۃ اللہ علیہ کی تصنیفی جدوجہد سے آگاہ ہونے کی کوشش کرتے ہیں۔لیکن اس سے پہلے یہ بتانا ضروری ہے کہ 1320ھ میں ان کو حضرت مولانا شمس الحق صاحب ڈیانوی رحمۃ اللہ علیہ نے تصنیفی کام میں معاونت کے لیے اپنے ہاں بلا لیا تھا۔بعض حضرات کا کہنا ہے کہ 1320ھ سے لے کر 1323ھ تک چار سال وہ مولانا ڈیانوی کے پاس قیام فرما رہے۔لیکن مولانا محمد عزیر کی تحقیق کے مطابق 1317ھ سے 1323ھ تک سات سال ان کا قیام مولانا ڈیانوی کے ہاں رہا۔[1] مشہور روایت یہ ہے کہ اس اثناء میں مولانا مبارک پوری نے سنن ابی داؤد کی شرح عون المعبود کی تصنیف کے سلسلے میں مولانا ڈیانوی کی معاونت فرمائی۔لیکن عون المعبود کے مقدمے سے معلوم ہوتا ہے کہ ابوداؤد کی شرح”غایۃ المقصود“ کی تصنیف میں ان کی معاونت کی تھی۔[2] اب حضرت مولانا مبارک پوری کی تصانیف کا تذکرہ۔۔۔! ان کی تصانیف کی تعداد بیس تک پہنچتی ہے، جن میں سے گیارہ مطبوعہ ہیں اور نوغیر مطبوعہ۔پہلے مطبوعہ کا تذکرہ۔ 1۔۔۔تحفۃ الاحوذی شرح جامع ترمذی، یہ حضرت مرحوم کی نہایت مہتم بالشان کتاب ہے جو |