Maktaba Wahhabi

187 - 665
میں حضرت مولانا عبدالرحمٰن مبارک پوری سے اخذ علم کیا۔یہ مدرسہ اب بھی قائم ہے اورتشنگانِ علوم اس کے اساتذہ سے استفادہ کرتے ہیں۔[1] مدرسہ دارالتعلیم میں خدمت تدریس کے علاوہ مولانا مبارک پوری رحمۃ اللہ علیہ نے اضلاع گونڈہ وبستی وغیرہ کے تبلیغی دورے کیے اور ان اضلاع کے لوگ ان کی تبلیغی مساعی سے بے حد متاثر ہوئے۔بلرام پور(ضلع گونڈہ) میں اسلامی مدرسہ قائم کیا۔ جس میں ایک مدت تک وہ قرآن وحدیث کا درس دیتے رہے۔ 1904ء(1339ھ) میں ایک مقام اللہ نگر میں دینی مدرسے کی تاسیس کی، جس کا نام وہاں کے لوگوں نے”فیض العلوم“ رکھا۔1907ء میں کنڈو، بونڈ یہار کے سرکردہ لوگوں کی دعوت پر تشریف لے گے تو وہاں دریائے راپتی کے کنارے جامعہ سراج العلوم کی بنیاد رکھی۔یہاں ان سے بہت سے شائقین علم نے اکتساب فیض کیا۔ حضرت میاں صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے شاگردرشید مولانا ابراہیم صاحب آروی مرحوم نے آرہ میں مدرسہ احمدیہ کے نام سے ایک دارالعلوم جاری کیا تھا۔حضرت حافظ عبداللہ غازی پوری رحمۃ اللہ علیہ کے حکم سے مولانا مبارک پوری 1910ءمیں مدرسہ احمدیہ(آرہ) میں درس وتدریس میں مشغول ہوئے۔ کلکتہ کے مدرسہ دارالقرآن والحدیث میں بھی چند سال ان کی تدریسی سرگرمیاں جاری رہیں۔اس کے بعد اپنے وطن مبارک پور واپس تشریف لے آئے اور پھر تدریس کے لیے کہیں نہیں گئے۔گھر میں بیٹھ کر تصنیف وتالیف کو اپنا مقصدِحیات قراردے لیا۔ اس اثناء میں سعودی عرب کے حکمران سلطان عبدالعزیز بن عبدالرحمٰن مرحوم نے بھی ان کو بیت اللہ شریف میں درس حدیث کےلیے دعوت دی، لیکن اس وقت وہ جامع ترمذی کی شرح تحفۃ الاحوذی لکھ رہے تھے، اس لیے سلطان موصوف سے معذرت کردی اور فرمایا اب میں شرح ترمذی کے اہم کام میں مصروف ہوں۔ دارالحدیث رحمانیہ دہلی کے ناظم شیخ عطاء الرحمٰن مرحوم نے گراں قدر مشاہرے پر دارالحدیث کی صدر مدرسی کے لیے طلب کیا۔اس پر بھی معذرت فرمادی۔[2]
Flag Counter