تصانیف مولانا رحیم آبادی ہمہ اوصاف موصوف عالم دین تھے۔ تفسیر، حدیث فقہ، اسماء الرجال، ادبیات، فلسفہ، منطق، اسلامی تاریخ وغیرہ تمام علوم میں مہارت رکھتے تھے۔ پھر خطابت، تقریر، تدریس، فتوی نویسی، تبلیغ اور روزمرہ کے اسفا اور ہمدردی خلائق بھی ان کے دل پسند مشاغل تھے۔ہر آن کوئی نہ کوئی مصروفیت انھیں رہتی تھی، جس کا تذکرہ بہت حد تک گزشتہ صفحات میں ہو چکا ہے۔ ان گونا گوں مشاغل و مصروفیات کی بنا پر اگرچہ وہ زیادہ تصنیفی خدمات سر انجام نہیں دے سکے، تاہم جو کچھ لکھا نہایت محققانہ انداز میں لکھا اور اس وقت نظر اور خوش اسلوبی سے لکھا کہ کوئی اس کا جواب نہ دے سکا۔ان کی تحریری اور تصنیفی کاوشوں کا ذکر مندرجہ ذیل سطور میں کیا جاتا ہے۔ 1۔۔۔ حسن البيان فيما في سيرة النعمان:یہ کتاب مولانا ممدوح نے مولانا شبلی کی کتاب”سیرۃ النعمان“کے جواب میں لکھی۔ مولانا شبلی بے شک بہت بڑے عالم اور مؤرخ ہیں، لیکن انھوں نے”سيرة النعمان “میں حضرت امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے حالات لکھتے وقت مختلف مقامات میں بہت ٹھوکر کھائی ہے اور ان کا اشہب قلم صحت و انصاف کے دائرے سے باہر نکل گیا ہے انھوں نے محدثین پر تنقید کی اور امام بخاری کو ہدف و جرح ٹھہرایا۔ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی مجلس تدوین فقہ کا جس انداز میں ذکر کیا اور ان کے ارکان کے سنین کا جس نہج سے تذکرہ کیا، اس کا تاریخ سے قطعاً کوئی تعلق نہیں ہے۔ مولانا رحیم آبادی”سيرۃ النعمان “کی اشاعت کے فوراً بعد اس کے جواب میں” حسن البیان فیما فی سيرۃ النعمان “لکھی، جس میں شبلی کی تمام تاریخی اور تحقیقی لغزشوں کی تفصیل سے نشاندہی کی اور اس کے مقابلے میں صحیح صورتحال کی وضاحت فرمائی، جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ شبلی نے یہ کتاب پڑھ کر”سيرۃ النعمان “سے اپنے تحریر کردہ بہت سے حصے نکال دیے۔ لیکن پھر بھی (نرم الفاظ میں کہنا چاہیے کہ) بہت سے تسامحات اس کتاب میں موجودہیں۔ حسن البیان مولانا رحیم آبادی کی ایسی محققانہ تصنیف ہے کہ آج تک کوئی شخص اس کا جواب نہ دے سکا، بلکہ خود مولانا شبلی اس قسم کے موضوعات پر طبع آزمائی سے ہی کنارہ کش ہو گئے۔ یہ کتاب پہلی مرتبہ 1311 ھ میں مطبع فاروقی دہلی سے شائع ہوئی تھی۔ دوسری دفعہ جید پریس دہلی سے ایک بزرگ محمد سعید صاحب کی کوشش سے معرض اشاعت میں آئی۔ تیسری دفعہ 1385 ھ میں اہل حدیث اکیڈمی لاہور نے شائع کی۔اس شاعت پر مولانا عطاء اللہ حنیف نے مولانا رحیم آبادی کے مختصر حالات قلمبند کیے ہیں جو صرف چارصفحات پر مشتمل ہیں اور حضرت مولانا محمد اسماعیل سلفی نے”مسئلہ درایت وفقہ راوی کا تاریخی وتحقیقی جائز ہ “کے عنوان سے طویل مقدمہ تحریر فرمایا جو 39 |