جا چکی ہیں۔ اب ایک مثال اور ملاحظہ فرمائیے۔ کئی سال مولانا مظفر پور میں مقیم رہے۔اس طویل مدت میں انھوں نے والد مکرم سے کوئی پیسہ نہیں لیا اور نہ اس سلسلے میں والد کو تکلیف دینے کی ضرورت محسوس کی۔ اللہ پر بھروسا کیا اور کسی سے اپنی کسی ضرورت کا اظہار بھی نہیں کیا۔ اس زمانے میں جو لوگ ان کے ساتھ اقامت گزیں تھے، ان کا بیان ہے کہ روزانہ استعمال کی چیزیں بازار سے ادھار آتی تھیں۔ جب دکان دار کو ان کی قیمت ادا کرنا ہوتی تو کسی کو حکم دیتے کہ بستر کے نیچے دیکھو ان شاء اللہ کچھ مل جائے گا، ٹھیک اتنی رقم مل جاتی، جتنی دکان دار کو ادا کرنا ہوتی۔ کبھی ارشاد فرماتے پان دان کے نیچے دیکھو، وہاں بھی دیکھا جاتا تو مطلو بہ رقم موجود ہوتی۔ مطلب یہ کہ اس بے سرو سامانی کے زمانے میں بھی دسترخوان بہت وسیع تھا اور ضرورت کی ہر شے میسر تھی۔ ان کے والد مکرم شیخ احمد اللہ کو جب پتا چلا کہ مظفر پور میں عبدالعزیز گھر سے کوئی امداد لیے بغیر نہایت آسودگی کی زندگی بسر کر رہے ہیں تو اس کی تحقیق کے لیے خود مظفر پور پہنچے اور دس گیارہ دن وہاں رہے۔ جب دیکھا کہ کھانے کے وقت دسترخوان پر ہمیشہ بریانی، قورمہ، مرغ، کباب وغیرہ سے مہمانوں کی تواضع کی جارہی ہے تو انھیں سخت تعجب ہوا اور ایک روز آخر پوچھ ہی لیا کہ”میاں عبدالعزیز آخر کب تک یہ تکلف ہوتا رہے گا؟“جواب دیا :”اباجان جب تک خدا دیتا رہے گا۔‘‘ لوگ کہا کرتے تھے کہ مولانا کو اللہ کی طرف سے غیبی امداد ملتی ہے۔[1] مزدور کی مزدوری مولانا ممدوح مہمانوں اور دوستوں پر ہی خرچ نہیں کرتے تھے، اپنے گھریلو ملازموں اور زمین کے کارندوں کا بھی پورا خیال رکھتے تھے اور ان کو بروقت اور صحیح مزدوری دیتے تھے اور ان سے بے حد نرمی کا سلوک فرماتے تھے۔ان کے والد کے زمانے میں مزدور کی مزدوری ایک آنہ یومیہ تھی۔ ایک آنہ اس وقت چار پیسے کا تھا۔ آدھا پیسا بھی چلتا تھا، دھیلا بھی چلتا تھا اور دمڑی بھی چلتی تھی۔لیکن مولانا کے خیال میں مزدور کی روزانہ کی ایک آنہ مزدوری بہت کم تھی۔ چنانچہ زمینوں اور جائیداد کا انتظام خود مولانا ممدوح کے ہاتھ میں آیا تو انھوں نے مزدور کی مزدوری بڑھا کر تین آنے یومیہ کردی، جس پر مزدور بہت خوش ہوئے۔ پھر جب ان کے بڑے بھائی حج سے واپس آئے تو زمین اور جائیداد کا انتظام ان کے سپرد کردیا اور خود علمی کاموں میں مصروف ہو گئے۔[2] |