نیپال کا تبلیغی سفر ایک مرتبہ ایک بزرگ حافظ نواب علی نے مولانا کو بتایا کہ نیپال کے علاقے کی دینی حالت بہت خراب ہے۔ مسلمان شرک میں مبتلا ہیں۔ وہاں کی ایک بستی کا نام”بندر جھولا“ہے۔اس بستی کے مسلمانوں اور شرک ہندوؤں میں یہ ظاہر کوئی فرق نہیں۔مولانا فوراً تبلیغ دین کی غرض سے وہاں جانے کے لیے تیار ہوگئے۔ بیل گاڑی کی سواری تھی۔ کچھ زاد راہ ساتھ لیا اور چل پڑے۔ دور کا سفر۔ ساتھی بھوک سے سخت پریشان۔ مولانا کے پاس جو کچھ تھا سب رفقائے سفر کو کھلا دیا۔ راستے میں کھانے کوکوئی چیز میسر نہ آئی۔اس تکلیف کو دیکھ کر حافظ نواب علی رونے لگے۔لیکن مولانا کےصبر اور جفاکشی کا یہ عالم تھا کہ ان کو تسلی دیتے اور بار بار فرماتے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی تکلیفوں کے مقابلے میں اس تکلیف کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔یہ تو ان کے مقابلے میں عیش ہے۔کئی دن کے مشکل ترین سفر کے بعد وہاں پہنچے۔ کچھ دیر آرام کیا۔ مسلمانوں کی حالت دیکھی بے اختیار آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے۔ مسلمانوں کی حالت یہ تھی کہ ان کے نام ہندوؤں کی طرح رام لا ل۔ بھجو میاں، لچھمن میاں وغیرہ۔ شکل اور لباس بھی بالکل ہندوؤں کی مانند۔ سر کے بال بھی ہندوؤں کے سے۔ مندروں میں جاکر ہندوؤں کے دیوتاؤں کی پرستش کرتے۔گردن میں کنٹھی۔ کہلاتے مسلمان ہی تھے۔ لیکن نہ اللہ کا پتا نہ رسول کا۔ مولانا رحیم آبادی ایک عرصے تک وہاں رہے۔لوگوں کو کفر اور شرک کے ارتکاب سے روکا اور اسلامی احکام کی تبلیغ فرمائی۔ مولانا کا کمال یہ تھا کہ آہستہ آہستہ نہایت نرمی سے لوگوں کو سمجھاتے اور دین حق کی باتیں بتاتے۔اس کانتیجہ یہ ہواکہ بہت جلد نیپال کے مسلمانوں کی حالت بدل گئی۔ پھر اسی بستی”بندر جھولا“میں مسجد تعمیر ہوئی۔پانچ وقت اذان ہونے لگی اور باقاعدہ باجماعت نمازیں ادا کرنے کا سلسلہ شروع ہوا اور اللہ اکبر کی صدائیں گونجنے لگیں۔ اب یہ بستی نیپال میں تبلیغ اسلام کا ایک بڑا مرکز ہے۔[1] توکل علی اللہ اور مہمان نوازی مولانا رحیم آبادی کی جودت و سخاوت، فراخ دستی، وسعت قلب، جماعت کی امداد، مجاہدین کی اعانت، مستحقین کی نصرت، توکل علی اللہ اور مہمان نوازی کی متعدد مثالیں گذشتہ صفحات میں دی |